کیا موسیقی کا انداز بھی کاپی رائٹ کی زد میں آ سکتا ہے؟
کیا موسیقی کا انداز بھی کاپی رائٹ کی زد میں آ سکتا ہے؟

کیا موسیقی کا انداز بھی کاپی رائٹ کی زد میں آ سکتا ہے؟

یہ ایک ایسی قانونی جنگ کا خلاصہ ہے جس نے موسیقی کی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ امریکی عدالت میں “بلرڈ لائنز” اور “گاٹ ٹو گِو اٹ اپ” کے درمیان کاپی رائٹ تنازعہ نے نہ صرف فنکاروں بلکہ قانون دانوں کو بھی سوچ میں ڈال دیا۔ کیا موسیقی کا انداز بھی کاپی رائٹ کی زد میں آ سکتا ہے؟ نائنتھ سرکٹ کورٹ نے اس مقدمے میں کیا فیصلہ دیا، اور اس کے موسیقی کی صنعت پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟ آئیے، اس کہانی کو ڈرامائی انداز میں سمجھتے ہیں۔

مقدمے کے حالات: ایک میوزیکل تنازعہ کی شروعات

سن 2013 میں جب “بلرڈ لائنز” ریلیز ہوا، تو اس نے دنیا بھر میں دھوم مچا دی۔ فریل ولیمز، روبن تھک، اور کلیفورڈ ہیرس (ٹی آئی) کا یہ گانا سال کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا سنگل بن گیا۔ لیکن جلد ہی یہ گانا تنازعات کی زد میں آ گیا۔ مارون گے کے خاندان، جن میں فرینکی کرسچن گے، نونا مارویسا گے، اور مارون گے تھرڈ شامل تھے، نے دعویٰ کیا کہ “بلرڈ لائنز” نے ان کے والد کے مشہور گانے “گاٹ ٹو گِو اٹ اپ” (1977) کی کاپی کی ہے۔ کیا موسیقی کا انداز بھی کاپی رائٹ کی زد میں آ سکتا ہے؟ یہ سوال اس مقدمے کا مرکزی نقطہ بن گیا۔

مارون گے، جن کا نام موسیقی کی دنیا میں ایک لیجنڈ کے طور پر لیا جاتا ہے، نے “گاٹ ٹو گِو اٹ اپ” کو اپنے اسٹوڈیو میں ریکارڈ کیا تھا۔ یہ گانا 1977 میں بل بورڈ ہاٹ 100 چارٹ پر نمبر ون رہا۔ لیکن چونکہ یہ گانا 1909 کے کاپی رائٹ ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ تھا، اس کی قانونی تحفظات صرف شیٹ میوزک تک محدود تھیں، نہ کہ اس کی ساؤنڈ ریکارڈنگ تک۔ دوسری طرف، “بلرڈ لائنز” ایک جدید دور کا گانا تھا، جس کی دھن، تال، اور انداز نے اسے عالمی شہرت دلائی۔ گے خاندان کا الزام تھا کہ فریل ولیمز اور روبن تھک نے ان کے گانے کی نقل کر کے کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کی۔

اس تنازعہ نے موسیقی کی صنعت کو چونکا دیا۔ کیا ایک گانے کا “فیل” یا “گروو” بھی کاپی رائٹ کے تحت آ سکتا ہے؟ کیا موسیقی کا انداز بھی کاپی رائٹ کی زد میں آ سکتا ہے؟ گے خاندان نے فریل اور روبن پر دباؤ ڈالا، اور بات عدالت تک جا پہنچی۔ فریل ولیمز اور روبن تھک نے پہلے ہاتھ لے کر اگست 2013 میں ایک ڈیکلریٹری ججمنٹ کے لیے مقدمہ دائر کیا، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ انہوں نے کوئی کاپی رائٹ توڑا ہی نہیں۔ لیکن گے خاندان نے جوابی دعویٰ دائر کیا، اور یوں ایک تاریخی قانونی جنگ کا آغاز ہوا۔

قانونی کارروائی: عدالت میں میوزیکل جنگ

مقدمہ وسطی کیلیفورنیا کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں شروع ہوا، جہاں جج جان کرونسٹڈ نے کیس کی سماعت کی۔ گے خاندان کے وکلاء نے دعویٰ کیا کہ “بلرڈ لائنز” نے “گاٹ ٹو گِو اٹ اپ” کے کئی عناصر چُرائے، جیسے کہ اس کا “سگنیچر فریز”، “ہُک”، باس لائن، اور کی بورڈ پارٹس۔ انہوں نے ماہر موسیقیات جیوڈتھ فنل کی خدمات حاصل کیں، جنہوں نے دونوں گانوں میں آٹھ مماثلتیں یا “کنسٹلیشن آف سملرٹیز” کی نشاندہی کی۔ دوسری طرف، فریل اور روبن کے وکیل نے موسیقیات کی ماہر سینڈی ولبر کی رائے پیش کی، جن کا کہنا تھا کہ دونوں گانوں میں کوئی خاص مماثلت نہیں۔ کیا موسیقی کا انداز بھی کاپی رائٹ کی زد میں آ سکتا ہے؟ یہ سوال جج اور جیوری کے سامنے بار بار آیا۔

ڈسٹرکٹ کورٹ نے پہلے فریل اور روبن کی سمری ججمنٹ کی درخواست مسترد کر دی، یہ کہتے ہوئے کہ کیس میں کافی شواہد موجود ہیں کہ جیوری کو فیصلہ کرنا چاہیے۔ ٹرائل کے دوران، گے خاندان نے ایڈٹ شدہ ساؤنڈ ریکارڈنگز پیش کیں جو صرف شیٹ میوزک کے عناصر پر مبنی تھیں، کیونکہ 1909 کا کاپی رائٹ ایکٹ ساؤنڈ ریکارڈنگز کو تحفظ نہیں دیتا تھا۔ فریل اور روبن نے تسلیم کیا کہ وہ مارون گے سے متاثر تھے اور انہیں “گاٹ ٹو گِو اٹ اپ” تک رسائی تھی، لیکن انہوں نے کاپی کرنے سے انکار کیا۔

سات روزہ ٹرائل کے بعد، مارچ 2015 میں جیوری نے فیصلہ سنایا کہ فریل ولیمز، روبن تھک، اور ان کی پبلشنگ کمپنی نے کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کی۔ جیوری نے گے خاندان کو 73 لاکھ ڈالرز کا معاوضہ دیا، جس میں 40 لاکھ ڈالرز نقصانات اور باقی انفرنگرز کے منافع کے طور پر تھے۔ لیکن جیوری نے کلیفورڈ ہیرس اور انٹرسکوپ ریکارڈز کو بری کر دیا۔ ڈسٹرکٹ کورٹ نے بعد میں معاوضے کی رقم کم کر کے 53 لاکھ ڈالرز کر دی اور مستقبل کے رائلٹیز کا 50 فیصد حصہ بھی گے خاندان کو دینے کا حکم دیا۔

فریل اور روبن نے اس فیصلے کے خلاف نائنتھ سرکٹ کورٹ آف اپیلز میں اپیل دائر کی۔ کیا موسیقی کا انداز بھی کاپی رائٹ کی زد میں آ سکتا ہے؟ یہ سوال اب ایک اعلیٰ عدالت کے سامنے تھا۔

عدالت کا فیصلہ اور وجوہات

نائنتھ سرکٹ کورٹ نے 21 مارچ 2018 کو اپنا فیصلہ سنایا، جس نے موسیقی کی دنیا میں ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ عدالت نے ڈسٹرکٹ کورٹ کے فیصلے کے زیادہ تر حصوں کو برقرار رکھا، لیکن کچھ حصوں کو مسترد بھی کیا۔ آئیے، اس فیصلے کے اہم نکات کو سمجھتے ہیں:

  1. کاپی رائٹ کا دائرہ کار: عدالت نے تسلیم کیا کہ “گاٹ ٹو گِو اٹ اپ” 1909 کے کاپی رائٹ ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے، جو صرف شیٹ میوزک کو تحفظ دیتا ہے۔ اس لیے عدالت نے ساؤنڈ ریکارڈنگ کو کیس سے خارج رکھا۔ لیکن عدالت نے یہ بھی کہا کہ موسیقی کی کمپوزیشنز کو “وسیع” کاپی رائٹ تحفظ حاصل ہوتا ہے، کیونکہ موسیقی محدود عناصر تک نہیں سمیٹی جا سکتی۔

  2. سبسٹینشل سملرٹی: عدالت نے “انورس ریشو رول” کا اطلاق کیا، جس کے تحت اگر ملزم کو اصل کام تک زیادہ رسائی ہو، تو مماثلت ثابت کرنے کا بوجھ کم ہو جاتا ہے۔ فریل اور روبن نے تسلیم کیا تھا کہ انہیں “گاٹ ٹو گِو اٹ اپ” تک رسائی تھی، اس لیے جیوری کے لیے مماثلت ثابت کرنا آسان ہو گیا۔ عدالت نے کہا کہ جیوری نے ماہرین کی شہادتوں اور شواہد کی بنیاد پر صحیح فیصلہ دیا کہ دونوں گانوں میں “ایکسٹرنسک” اور “انٹرنسک” مماثلت موجود ہے۔

  3. جیوری کی ہدایات: فریل اور روبن نے دعویٰ کیا کہ جیوری کو غلط ہدایات دی گئیں، جو غیر محفوظ عناصر (جیسے تھیم ایکس یا باس لائن) کو بھی شامل کرتی تھیں۔ لیکن عدالت نے کہا کہ ہدایات مجموعی طور پر درست تھیں اور جیوری کو صرف شیٹ میوزک پر غور کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

  4. شواہد کی قبولیت: عدالت نے ماہر جیوڈتھ فنل اور ڈاکٹر انگرڈ مونسن کی شہادتوں کو درست قرار دیا۔ اگرچہ فریل کے وکیل نے کہا کہ انہوں نے غیر محفوظ عناصر پر بات کی، لیکن عدالت نے کہا کہ یہ تنازعہ جیوری کے حل کرنے کے لیے تھا، اور ماہرین نے شیٹ میوزک پر مبنی شہادتیں دیں۔

  5. معاوضہ اور رائلٹیز: عدالت نے ڈسٹرکٹ کورٹ کے معاوضے اور 50 فیصد رائلٹیز کے فیصلے کو برقرار رکھا، یہ کہتے ہوئے کہ یہ مناسب اور شواہد پر مبنی تھا۔

  6. بریت کا فیصلہ: عدالت نے ڈسٹرکٹ کورٹ کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا جس میں کلیفورڈ ہیرس اور انٹرسکوپ ریکارڈز کو ثانوی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ گے خاندان نے جیوری کے فیصلے کے خلاف بروقت اعتراض نہیں کیا، اس لیے ان کی بریت برقرار رہے گی۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہ اس سوال کا فیصلہ نہیں کرے گی کہ کیا 1909 کے کاپی رائٹ ایکٹ کے تحت ساؤنڈ ریکارڈنگز کو تحفظ حاصل ہو سکتا ہے، کیونکہ کیس کو دوبارہ ٹرائل کے لیے نہیں بھیجا جا رہا۔ کیا موسیقی کا انداز بھی کاپی رائٹ کی زد میں آ سکتا ہے؟ عدالت نے اس سوال کا براہ راست جواب دینے سے گریز کیا، لیکن اس نے واضح کیا کہ موسیقی کے مخصوص عناصر، جیسے دھن یا تال، کاپی رائٹ کے تحت آ سکتے ہیں اگر وہ کافی مماثل ہوں۔

سبق اور نتیجہ

اس فیصلے سے موسیقی کی صنعت کے لیے کئی اہم سبق ملتے ہیں۔ سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ فنکاروں کو اپنی تخلیقات بناتے وقت زیادہ احتیاط برتنی ہو گی۔ کیا موسیقی کا انداز بھی کاپی رائٹ کی زد میں آ سکتا ہے؟ یہ فیصلہ بتاتا ہے کہ اگرچہ “گروو” یا انداز کو کاپی رائٹ نہیں کیا جا سکتا، لیکن مخصوص عناصر جو شیٹ میوزک میں درج ہیں، تحفظ یافتہ ہو سکتے ہیں۔

فنکاروں کے لیے پیغام واضح ہے: اگر آپ کسی سے متاثر ہو رہے ہیں، تو اپنے کام کو منفرد بنائیں۔ عدالت نے یہ بھی دکھایا کہ ماہرین کی شہادتیں کتنی اہم ہو سکتی ہیں۔ جیوڈتھ فنل کی تفصیلی تجزیاتی رپورٹ نے گے خاندان کے کیس کو مضبوط کیا، جبکہ فریل کی ماہر سینڈی ولبر کے دلائل کمزور پڑ گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانونی جنگ میں تکنیکی مہارت کتنی ضروری ہے۔

عام شہری کے لیے یہ فیصلہ ایک یاد دہانی ہے کہ کاپی رائٹ قانون کتنا پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ یہ نہ صرف موسیقی بلکہ دیگر تخلیقی شعبوں، جیسے ادب یا فلم، پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اگر آپ ایک فنکار ہیں، تو اپنے کام کو رجسٹر کروانا اور اس کی قانونی حدود کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

اخلاقی طور پر، یہ فیصلہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ تخلیقی آزادی اور دوسروں کے حقوق کے درمیان توازن کیسے رکھا جائے۔ مارون گے کے خاندان نے اپنے والد کی میراث کو بچانے کی کوشش کی، جبکہ فریل اور روبن نے اپنی تخلیقی آزادی کا دفاع کیا۔ کیا موسیقی کا انداز بھی کاپی رائٹ کی زد میں آ سکتا ہے؟ یہ سوال اب بھی بحث طلب ہے، لیکن یہ فیصلہ ایک نئی راہ دکھاتا ہے۔

ڈس کلیمر

یہ بلاگ اصل عدالتی فیصلے کا ترجمہ یا خلاصہ ہے، جس میں غلطیوں کا امکان ہو سکتا ہے۔ کسی بھی قانونی حوالے کے لیے اصل فیصلہ پڑھیں۔

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *