ایک انوکھا مقدمہ جس میں ایک فلم کے جھلک دکھانے والے اشتہار پر سوال اٹھایا گیا۔ عدالت نے فیصلہ سنایا کہ اگر اشتہار میں دکھایا گیا منظر اصل فلم میں نہ ہو، تو ناظرین کے ساتھ دھوکہ ہو سکتا ہے۔ اس مقدمے کی مکمل کہانی جاننے کے لیے یہ بلاگ پڑھیے۔
مقدمے کی تفصیل
یہ واقعہ سن دو ہزار انیس میں پیش آیا۔ اُس سال ایک فلم “گزشتہ دن” سنیما گھروں میں پیش کی گئی۔ کہانی ایک ایسے نوجوان کی ہے جو ایک حادثے کے بعد ہوش میں آتا ہے اور دیکھتا ہے کہ دنیا مشہور موسیقی گروہ “بیٹلز” کو بھول چکی ہے۔ وہ ان کے گیت اپنے نام سے گاتا ہے اور شہرت حاصل کر لیتا ہے۔
فلم کا اشتہار جو انٹرنیٹ پر دکھایا گیا، خاص طور پر ایک منظر کی وجہ سے بہت مقبول ہوا۔ اس منظر میں ایک مشہور اداکارہ “اینا ڈی آرماس” مرکزی کردار کے ساتھ ایک دلکش لمحے میں دکھائی گئیں۔ اشتہار میں یہ منظر پندرہ سیکنڈ تک دکھایا گیا۔
لیکن جب دو ناظرین، پیٹر مائیکل اور کونر وولف، نے فلم کو آن لائن تین روپے ننانوے پیسے میں کرائے پر لے کر دیکھا، تو انہیں شدید مایوسی ہوئی۔ وہ منظر، جو اشتہار میں موجود تھا، پوری فلم میں کہیں نظر نہ آیا۔ نہ ہی وہ اداکارہ فلم میں شامل تھیں۔
ان دونوں ناظرین نے عدالت سے رجوع کیا اور فلم بنانے والی کمپنی کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ اشتہار جھوٹا تھا اور ان سے فریب کیا گیا۔
قانونی چارہ جوئی
ان ناظرین نے عدالت میں کئی قوانین کے تحت مقدمہ دائر کیا، جن میں صارفین کے حقوق، غلط بیانی، اور غیر منصفانہ کاروباری طریقوں کے قوانین شامل تھے۔
فلم بنانے والی کمپنی نے مقدمہ خارج کرنے کی درخواست دی۔ ان کا کہنا تھا کہ فلم کا اشتہار ایک تخلیقی اظہار ہے، اور اس پر اظہارِ رائے کی مکمل آزادی کا اطلاق ہوتا ہے۔
مدعی یعنی ناظرین کے وکیل نے جواب دیا کہ اشتہار کا مقصد صرف فلم کی تشہیر اور کمائی ہوتا ہے، اس لیے یہ محض تفریح نہیں بلکہ تجارتی بیان ہے۔
عدالت نے دونوں فریقین کے دلائل سنے اور غور کے بعد فیصلہ سنایا۔
عدالت کا فیصلہ اور اس کی بنیادیں
یہ فیصلہ امریکی ریاست کیلیفورنیا کی عدالت نے سنایا۔ جج نے مندرجہ ذیل نکات بیان کیے:
۱۔ جھوٹا اشتہار:
عدالت نے تسلیم کیا کہ فلم کے اشتہار میں وہ اداکارہ دکھائی گئی تھیں، جبکہ وہ فلم میں شامل ہی نہ تھیں۔ یہ ایک دھوکہ دہی تھی، کیونکہ عام ناظر اس سے یہ سمجھ سکتا تھا کہ وہ فلم میں موجود ہیں۔
۲۔ تجارتی مقصد:
عدالت نے قرار دیا کہ فلم کا اشتہار ایک تجارتی بیان تھا، کیونکہ اس کا مقصد لوگوں کو فلم دیکھنے پر آمادہ کرنا تھا۔ اس لیے یہ اظہارِ رائے کی مکمل آزادی کے دائرے میں نہیں آتا۔
۳۔ مصنوعات کی ضمانت:
عدالت نے کہا کہ چونکہ فلم کرائے پر دی گئی اور یہ کوئی ٹھوس چیز نہیں بلکہ غیر محسوس تفریحی مواد ہے، اس لیے عام صارفین کے تحفظ سے متعلق کچھ قوانین اس پر لاگو نہیں ہوتے۔
۴۔ آئندہ دھوکہ دہی کا امکان:
عدالت نے اشتہار پر پابندی لگانے کی درخواست مسترد کی، کیونکہ ناظرین اب جان چکے تھے کہ فلم میں وہ اداکارہ شامل نہیں۔ اس لیے دوبارہ دھوکہ کھانے کا امکان نہ تھا۔
۵۔ معاوضے کا مطالبہ:
عدالت نے تسلیم کیا کہ اگر ناظرین نے ایسے مناظر کے وعدے پر فلم دیکھی، جو فلم میں تھے ہی نہیں، تو وہ اپنے نقصان کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔
نتیجہ اور سیکھنے کے پہلو
-
-
-
یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ اشتہار میں اگر ایسی چیز دکھائی جائے جو اصل مواد میں موجود نہ ہو، تو یہ قانوناً غلط ہو سکتا ہے۔
-
فلم بنانے والوں کے لیے یہ ایک انتباہ ہے کہ وہ اشتہارات میں سچائی سے کام لیں۔
-
ناظرین کے لیے یہ سبق ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر سکتے ہیں، چاہے معاملہ تفریحی فلم کا ہی کیوں نہ ہو۔
-
عدالت نے نہ صرف صارفین کے حقوق کا تحفظ کیا بلکہ اظہارِ رائے اور کاروباری آزادی کے درمیان توازن بھی قائم رکھا۔
-
-
وضاحت: یہ بلاگ ایک عدالتی فیصلے پر مبنی خلاصہ ہے، جو عام فہم انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کسی بھی قانونی مشورے یا دعوے کے لیے اصل عدالتی فیصلہ ملاحظہ کیا جانا چاہیے۔