کیا سیاسی دشمنی ایک جھوٹے مقدمے کی بنیاد بن سکتی ہے؟
کیا سیاسی دشمنی ایک جھوٹے مقدمے کی بنیاد بن سکتی ہے؟

کیا سیاسی دشمنی ایک جھوٹے مقدمے کی بنیاد بن سکتی ہے؟

کراچی کے ضمنی انتخابات کے دوران دو قتل اور ایک زخمی، لیکن سندھ ہائی کورٹ نے ملزمان کو بری کر دیا۔ کیا ثبوتوں کی کمی یا سیاسی دباؤ نے انصاف کا رخ موڑ دیا؟ اس عدالتی کہانی کے راز جانیں۔

مقدمے کے حالات

تصور کریں ایک گرم جون کی دوپہر، جب کراچی کی سڑکیں انتخابی جوش سے بھری ہوئی ہیں۔ 23 جون 2003 کو لانڈھی کے علاقے NA-255 میں ضمنی انتخابات ہو رہے تھے۔ جونید دودھ کی دکان کے سامنے، بھنگی پارہ، لانڈھی نمبر 2، ایک سوزوکی ہائی روف وین (نمبر CD-4571) کھڑی تھی۔ اس میں محمد نعیم، انم عذیر، اور محمد شاہد عرف پاپی موجود تھے، جو متحدہ قومی موومنٹ (MQM) کے کارکن تھے اور انتخابی مہم چلا رہے تھے۔

اچانک ایک چریڈ کار تیزی سے آئی، اس کے پیچھے ایک سرخ ہونڈا سوک کار تھی۔ چریڈ سے چار مسلح افراد اترے، جن کے ہاتھوں میں ٹی ٹی پستول تھیں۔ انہوں نے وین پر فائرنگ شروع کر دی۔ محمد نعیم کے پیٹ اور ٹانگ میں گولیاں لگیں، جبکہ انم عذیر کو زبردستی وین سے باہر کھینچا گیا اور گولی مار دی گئی۔ فائرنگ کے دوران وین کے ڈرائیور محمد شاہد پر بھی حملہ ہوا، لیکن وہ بچ گئے۔ حملہ آوروں نے نعرے لگائے: “امیر خان زندہ باد!” اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے اپنے لیڈر کے حکم پر یہ سب کیا۔

زخمیوں کو فوری طور پر کورنگی نمبر 5 کے ہسپتال لے جایا گیا، جہاں سے انہیں جناح ہسپتال منتقل کیا گیا۔ بدقسمتی سے، انم عذیر موقع پر ہی دم توڑ گئے، اور محمد نعیم چند دن بعد، 13 جولائی کو، آگا خان ہسپتال میں شدید زخموں کی وجہ سے چل بسے۔

پولیس نے مقدمہ درج کیا اور الزام لگایا کہ یہ حملہ MQM کے دو دھڑوں—MQM (ہقیقی) اور MQM (متحدہ)—کے درمیان سیاسی دشمنی کی وجہ سے ہوا۔ ملزمان میں محمد امیر خان (جو مبینہ طور پر حملے کا حکم دینے والا تھا)، طارق عرف بٹا، اور دو مفرور ملزمان (کالا ناظم اور رئیس عرف ٹوپی) شامل تھے۔ لیکن کیا یہ واقعی سیاسی دشمنی تھی، یا اس کے پیچھے کوئی اور کہانی تھی؟

قانونی کارروائی

پولیس نے تفتیش شروع کی۔ محمد امیر خان کو 8 جولائی 2003 کو گرفتار کیا گیا، اور ان کی شناخت ایک پریڈ میں گواہوں (حسن دلاور، محمد سلیم، اور محمد رفیع) نے کی۔ طارق عرف بٹا کو بعد میں، 29 ستمبر 2003 کو، ایک اور مقدمے سے گرفتار ہونے پر اس کیس میں شامل کیا گیا۔ تفتیش میں وین سے خون آلود اشیاء (جیسے سیٹ کور، جوتا، اور کپڑے) اور گولیوں کے خول ملے، جنہیں کیمیکل ایگزامینر نے انسانی خون سے داغدار پایا۔ وین پر گولیوں کے نشانات بھی تصدیق شدہ تھے۔

کیس اینٹی ٹیررزم کورٹ نمبر II، کراچی میں چلا۔ 15 دسمبر 2004 کو کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ ملزمان قصوروار ہیں۔ سزائیں یہ تھیں:
محمد نعیم اور انم عذیر کے قتل (قاتلِ عمد) کے لیے ہر ملزم کو دو بار عمر قید۔
محمد شاہد پر اقدام قتل کے لیے 7 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ۔
وین کو نقصان پہنچانے کے لیے 2 سال قید اور 10,000 روپے جرمانہ۔
محمد امیر خان کو حملے کی تحریک دینے (abetment) کے جرم میں 10 سال قید۔
مقتولین کے ورثا کے لیے فی کس ڈیڑھ لاکھ روپے معاوضہ۔

ملزمان نے اس فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی (A.T.A. Appeal No. 45 of 2004)، جبکہ پراسیکیوشن نے سزا بڑھانے کی اپیل کی۔ ملزمان کے وکلاء نے دلائل دیے کہ:
مقدمہ سیاسی دشمنی کی وجہ سے جھوٹا بنایا گیا۔
• FIR
میں 9 دن کی تاخیر تھی، جو کہ کیس کو مشکوک بناتی ہے۔
گواہ MQM (متحدہ) کے کارکن تھے اور جانبدار تھے۔
طارق عرف بٹا کی شناخت پریڈ نہیں ہوئی، اور گواہوں نے اسے صرف چند سیکنڈ دیکھا تھا۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ گواہوں کی شہادتیں قابل اعتماد ہیں، اور تاخیر کی وجہ محمد نعیم کی شدید زخمی حالت تھی۔

عدالت کا فیصلہ اور وجوہات

سندھ ہائی کورٹ نے 15 اپریل 2020 کو فیصلہ سنایا، جسے جسٹس محمد کریم خان آغا نے لکھا۔ عدالت نے تمام ملزمان کو بری کر دیا اور ان کی سزائیں کالعدم قرار دیں۔ فیصلے کی اہم وجوہات یہ تھیں:

FIR میں تاخیر: واقعہ 23 جون 2003 کو ہوا، لیکن FIR 2 جولائی کو، یعنی 9 دن بعد درج ہوئی۔ پراسیکیوشن نے دعویٰ کیا کہ محمد نعیم زخمی ہونے کی وجہ سے بیان نہ دے سکا، لیکن ڈاکٹر کلیم (MLO) نے بتایا کہ نعیم ہسپتال میں داخل ہوتے وقت ہوش میں تھا اور بیان دے سکتا تھا۔ عدالت نے کہا کہ دیگر گواہ یا پولیس فوری FIR درج کر سکتے تھے۔ یہ تاخیر کیس کو مشکوک بناتی ہے، کیونکہ سیاسی دشمنی کی وجہ سے جھوٹا کیس بنانے کا وقت مل گیا۔

گواہوں کی غیر معتبر شہادتیں:
پانچ گواہوں میں سے صرف جونید احمد (دکاندار) غیر جانبدار تھا، لیکن وہ ملزمان کو نہ پہچان سکا۔
باقی چار گواہ—محمد شاہد، محمد سلیم، رفیع اکبر، اور حسن دلاور—MQM (متحدہ) کے کارکن تھے اور مقتولین کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ ان کی شہادتیں جانبدار تھیں۔
گواہوں نے واقعے کے 11-12 دن بعد بیانات (S.161) دیے، جن میں کوئی وضاحت نہیں کہ وہ خاموش کیوں رہے۔
تمام گواہوں کے بیانات ایک جیسے تھے، جو کہ مشکوک ہے اور جھوٹے کیس کی تیاری کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

شناخت کے مسائل:
طارق عرف بٹا کی شناخت پریڈ نہیں ہوئی، اور گواہوں نے اسے صرف چند سیکنڈ 20 فٹ کے فاصلے سے دیکھا۔ محمد شاہد نے تو اسے دیکھا ہی نہیں، بلکہ دوسرے گواہوں سے اس کا نام سنا۔
محمد امیر خان کی شناخت پریڈ بے معنی تھی، کیونکہ وہ MQM (حقیقی) کے مشہور لیڈر تھے اور گواہ انہیں پہلے سے جانتے تھے۔

گواہوں کی موجودگی پر شک:
گواہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ زخمیوں کو ہسپتال لے گئے، لیکن نہ تو ان کے کپڑوں پر خون کے دھبے ملے، نہ ہسپتال کے ریکارڈ میں ان کے نام تھے۔
وہ ہسپتال سے خاموشی سے غائب ہو گئے اور محمد نعیم کی موت تک کوئی رابطہ نہ کیا، جو کہ غیر فطری ہے۔
رفیع اکبر نے بتایا کہ اسے MQM کے “مرکزی دفتر 90” نے پولیس سے رابطے کی ہدایت دی، جو کہ سیاسی دباؤ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

طبی شواہد سے تضاد: گواہوں نے کہا کہ طارق عرف بٹا نے انم عذیر کو ایک فٹ کے فاصلے سے گولی ماری، لیکن ڈاکٹر کلیم نے بتایا کہ زخموں پر سیاہ نشانات سے پتہ چلتا ہے کہ گولی کم از کم 3 فٹ کے فاصلے سے ماری گئی۔

سیاسی دشمنی: عدالت نے تسلیم کیا کہ MQM کے دو دھڑوں کے درمیان شدید دشمنی تھی۔ گواہ MQM (متحدہ) سے تھے، جو اس وقت سندھ حکومت کا حصہ تھی، جبکہ ملزمان MQM (حقیقی) سے۔ اس دشمنی نے گواہوں کو جھوٹا کیس بنانے کی ترغیب دی۔

ثبوتوں کی کمی:
طارق عرف بٹا سے کوئی اسلحہ برآمد نہ ہوا۔
محمد امیر خان کی ہونڈا سوک کار برآمد نہ ہوئی۔
گواہوں کے دعوے کہ امیر خان نے دوسری کار سے فائرنگ کا حکم دیا، ناقابل یقین تھا، کیونکہ کاروں کے شور اور فاصلے میں حکم سننا مشکل ہے۔

عدالت نے کہا کہ پراسیکیوشن “شک سے بالاتر” کیس ثابت نہ کر سکی۔ ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے، عدالت نے انہیں بری کر دیا اور طارق عرف بٹا کو فوری رہائی کا حکم دیا، جبکہ محمد امیر خان کے ضمانتی مچلکے منسوخ کر دیے۔

سبق اور نتیجہ

یہ فیصلہ پاکستانی عدالتی نظام کی سختی اور انصاف کے تقاضوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے ہمیں کئی اہم باتیں سمجھ آتی ہیں:

ثبوتوں کی اہمیت: چاہے کیس کتنا ہی سنگین ہو—قتل، دہشت گردی، یا سیاسی دشمنی—بغیر پختہ ثبوت کے سزا نہیں دی جا سکتی۔ گواہوں کی شہادتیں اگر جانبدار ہوں یا تضادات سے بھری ہوں، تو ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

فوری FIR کی ضرورت: تاخیر سے درج ہونے والی FIR کیس کو کمزور کرتی ہے۔ پولیس کو فوری کارروائی کرنی چاہیے، چاہے مدعی زخمی ہی کیوں نہ ہو۔

سیاسی دباؤ سے بچاؤ: سیاسی دشمنیاں جھوٹے مقدمات کا باعث بن سکتی ہیں۔ عدالتوں کو ایسی رنجشوں کو سمجھ کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔

عام پاکستانی کے لیے پیغام: اگر آپ کبھی قانونی جھگڑے میں پھنسیں، تو مضبوط ثبوت اور سچی گواہی آپ کو بچا سکتی ہے۔ انصاف جذبات یا دباؤ سے نہیں، حقائق سے ملتا ہے۔

یہ فیصلہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، اور کوئی بھی بغیر ثبوت کے سزا نہیں پا سکتا۔ یہ عدالتی نظام پر اعتماد بڑھاتا ہے، لیکن ساتھ ہی پولیس اور گواہوں کو اپنی ذمہ داریاں احتیاط سے نبھانے کی تلقین بھی کرتا ہے۔

ڈس کلیمر:
یہ بلاگ اصل عدالتی فیصلے کا ترجمہ یا خلاصہ ہے، جس میں غلطیوں کا امکان ہو سکتا ہے۔ کسی بھی قانونی حوالے کے لیے اصل فیصلہ پڑھیں

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *