18 فروری 1996، کراچی۔ شہر کی مصروف سڑکیں، شور، ہارن، اور روزمرہ کی زندگی۔ لیکن اس دن شام کے وقت سی بی چورنگی پر ایک المناک واقعہ ہوا جس نے کئی گھروں کو اندھیرے میں دھکیل دیا۔ ایک بڑی بس، نمبر JA-0753، جو پاکستان سٹیل ملز کی ملکیت تھی، نے ایک چھوٹی کار نمبر L-5036 کو زور سے ٹکر مار دی۔ کار میں پانچ لوگ سوار تھے—محمد اسلم، سید ریاض علی، راجہ اشفاق، طاہر حسین، اور ناصر احمد۔ اس **کراچی ٹریفک حادثہ** میں سب کی جان چلی گئی۔ کچھ موقع پر اور کچھ اسپتال میں۔
**غم، صدمہ اور انصاف کی تلاش 💔**
لواحقین نے جب اپنے پیاروں کے جنازے اٹھائے تو ساتھ ساتھ انصاف کی جنگ کا بھی آغاز کیا۔ چار متاثرہ خاندانوں نے—محمد بلال اسلم، سید فیاض علی، قادر بخش خان، اور آسیہ خاتون—نے سندھ ہائی کورٹ میں پاکستان سٹیل ملز اور ڈرائیور خالد زمان کے خلاف سول دعوے دائر کیے۔ ان کا موقف تھا کہ ڈرائیور کی لاپرواہی اور ادارے کی غفلت کی وجہ سے یہ **کراچی ٹریفک حادثہ** پیش آیا۔
**مقدمہ: گواہوں، جرح اور کاغذوں کی جنگ ⚖️**
مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو گویا عدالت ایک فلمی سین میں بدل گئی۔ متاثرہ خاندانوں کے وکلاء نے کئی گواہ پیش کیے:
– **محمد ذاکر**: عینی شاہد جس نے خود دیکھا کہ بس نے کار کو ٹکر ماری اور کئی فٹ تک گھسیٹا۔
– **محمد رفیق**: سٹیل ملز کا سیکیورٹی گارڈ، جس نے حادثہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
– **انسپکٹر غلام عباس بھٹی**: جس نے جائے حادثہ کا نقشہ بنایا اور بتایا کہ ٹکر کی ذمہ دار بس تھی۔
دوسری طرف پاکستان سٹیل ملز نے موقف اختیار کیا کہ کار کا ٹائی راڈ ٹوٹا ہوا تھا، اس لیے کار بے قابو ہو کر بس سے جا ٹکرائی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چونکہ فوجداری مقدمے میں خالد زمان بری ہو چکا ہے، اس لیے سول دعویٰ بھی ناقابل سماعت ہے۔
**جھوٹ، تضادات اور حیران کن انکشافات 🕵️**
عدالت نے جب سٹیل ملز کے گواہوں سے سوالات کیے تو جھوٹ اور تضادات کھل کر سامنے آ گئے:
– **ڈرائیور خالد زمان**: کہتا رہا کار خود ٹکرائی، مگر حادثے کی تفصیل اور بس کی حالت کے بارے میں کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ “سینٹری فیوجل” جیسا اصطلاح استعمال کی، مگر اس کا مطلب تک نہ جانتا تھا!
– **نور الاسلام بیگ**: گواہی میں جھول، جملوں کی تکرار، اور بیان میں تضاد—سب کچھ عدالت کے سامنے آیا۔
سب سے بڑی بات، سٹیل ملز نے ایک اندرونی انکوائری رپورٹ کو عدالت میں پیش ہی نہ کیا، جو کہ اس بات کا ثبوت تھا کہ شاید وہ رپورٹ ان کے خلاف جاتی تھی۔
**عدالت کا تاریخی فیصلہ 👨⚖️**
2 مارچ 2020 کو جج محمد فیصل کمال عالم نے فیصلہ سنایا: ڈرائیور خالد زمان لاپرواہی کا مرتکب قرار پایا اور پاکستان سٹیل ملز کو ہرجانے کی رقم ادا کرنے کا حکم دیا گیا:
– **محمد بلال اسلم کے ورثاء**: 55 لاکھ روپے
– **سید فیاض علی کے ورثاء**: 60 لاکھ روپے
– **آسیہ خاتون**: 15 لاکھ روپے
– **طاہر حسین کے والد**: 5 لاکھ روپے
عدالت نے کہا کہ فوجداری بریت سول مقدمے پر اثر انداز نہیں ہوتی، کیونکہ دونوں میں ثبوت کا معیار الگ ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ **کراچی ٹریفک حادثہ** کے متاثرین کے لیے انصاف کا ایک روشن نمونہ تھا۔
**سبق: ثبوت، سچائی، اور صبر کا راستہ 📚**
یہ کیس ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر آپ کے پاس سچ اور ثبوت ہوں، تو انصاف چاہے دیر سے ہی سہی، ضرور ملتا ہے۔ چاہے سامنے کتنا ہی طاقتور ادارہ ہو، اگر آپ ڈٹے رہیں، تو قانون آپ کا ساتھ دے گا۔
**آپ کی رائے کیا ہے؟ 📢**
آپ کو یہ **کراچی ٹریفک حادثہ** کی کہانی کیسی لگی؟ کیا عدالت کا فیصلہ درست تھا؟ نیچے کمنٹس میں اپنی رائے دیں، اور اگر آپ بھی چاہتے ہیں کہ قانون عام فہم انداز میں سمجھایا جائے، تو ہمارے بلاگ کو فالو کریں اور چینل سبسکرائب کرنا نہ بھولیں!
مزید پڑھیں: _سندھ ہائی کورٹ فیصلہ_ (https://caselaw.shc.gov.pk/caselaw/view-file/MTQ0MjA0Y2Ztcy1kYzgz).