جاذو کیس ایک جرم کی کہانی جو دنیا تک پہنچی
جاذو کیس ایک جرم کی کہانی جو دنیا تک پہنچی

جاذو کیس: ایک جرم کی کہانی جو دنیا تک پہنچی”

سلام دوستو! آج ہم ایک ایسی کہانی سننے جا رہے ہیں جو بلوچستان کی سنسان سڑکوں سے شروع ہوتی ہے اور دنیا کی سب سے بڑی عدالت تک جاتی ہے۔ یہ کہانی ہے کلبھوشن جاذو کی، جس کا کیس پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک جنگ بن گیا۔ 3 مارچ 2016 کی رات، جب جاذو پکڑا گیا، کسی نے نہیں سوچا تھا کہ یہ معاملہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس تک جائے گا۔ تو چلو، اس جرم کی کہانی شروع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیسے شک اور سچ کے درمیان فیصلہ ہوا۔

واقعہ: بلوچستان میں گرفتاری
3 مارچ 2016 کو، پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے بلوچستان کے ایک علاقے سے کلبھوشن جاذو کو گرفتار کیا۔ پاکستان کا دعویٰ تھا کہ جاذو ایک بھارتی جاسوس تھا، جو “حسین مبارک پٹیل” کے نام سے جعلی پاسپورٹ پر سفر کر رہا تھا۔ ان کے مطابق، جاذو بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی “را” کے لیے کام کرتا تھا اور پاکستان میں دھماکوں اور دہشت گردی کے منصوبے بنا رہا تھا۔ لیکن بھارت نے یہ بات پوری طرح سے مسترد کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ جاذو ایک ریٹائرڈ نیوی افسر تھا، جو ایران میں اپنا کاروبار چلا رہا تھا اور وہاں سے اسے اغوا کیا گیا۔ سچ کیا تھا؟ یہ اب تک راز ہے۔

جاذو کو گرفتار کرنے کے بعد، پاکستان نے اسے کسی کو بتائے بغیر اپنی حراست میں رکھا۔ 25 مارچ 2016 کو، جب پاکستان نے بھارت کے ہائی کمشنر کو اس گرفتاری کے بارے میں بتایا، تب بھارت نے فوراً قونصلر رسائی مانگی، یعنی اپنے افسران کو جاذو سے ملنے کی اجازت۔ لیکن پاکستان نے یہ مانگ ٹھکرا دی۔

پولیس اور تفتیش
گرفتاری کے بعد، پاکستان کی پولیس نے 8 اپریل 2016 کو جاذو کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی، جس میں اسے جاسوسی اور دہشت گردی کا الزام لگایا گیا۔ پاکستان کا دعویٰ تھا کہ جاذو نے اپنے جرم کا اقرار کیا تھا، اور اس کا یہ بیان ایک ویڈیو میں ریکارڈ کیا گیا۔ لیکن یہ ویڈیو کب اور کیسے بنائی گئی، یہ کوئی نہیں جانتا۔ بھارت نے کہا کہ یہ اقرار زبردستی لیا گیا تھا، کیونکہ جاذو کو اپنے ملک کے افسران سے ملنے نہیں دیا گیا۔

تفتیش کے دوران، پاکستان نے بھارت سے مدد مانگی کہ وہ جاذو کے جرم کے ثبوت دینے میں ساتھ دیں۔ لیکن بھارت نے کہا کہ بغیر قونصلر رسائی کے یہ ممکن نہیں۔ اس طرح، دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ بڑھتا گیا۔ جاذو کو ملٹری کورٹ میں پیش کیا گیا، اور 10 اپریل 2017 کو، اسے سزائے موت سنا دی گئی۔

عدالتی کارروائی
پاکستان کی ملٹری کورٹ نے جاذو کو سزائے موت دی، لیکن بھارت نے اس فیصلے کو نہیں مانا۔ ان کا کہنا تھا کہ جاذو کو نہ تو قونصلر رسائی دی گئی، نہ ہی اسے اپنا وکیل چننے کا پورا موقع ملا۔ بھارت نے یہ معاملہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) میں لے گیا، جو کہ دنیا کی سب سے بڑی عدالت ہے۔ بھارت کا دعویٰ تھا کہ پاکستان نے ویانا کنونشن کے قوانین توڑے ہیں، جو کہ کسی بھی ملک کے شہری کو گرفتاری کے بعد اپنے قونصلیٹ سے رابطہ کرنے کا حق دیتا ہے۔

پاکستان نے اپنا دفاع یہ کہا کہ جاذو ایک جاسوس تھا، اور ایسے لوگوں کے لیے ویانا کنونشن کا قانون نہیں لگتا۔ لیکن بھارت نے کہا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، چاہے کوئی کیسا بھی الزام ہو۔

کیس میں شک اور سچ
جب آئی سی جے میں کیس چلا، تو کئی شک سامنے آئے۔ پہلا، پاکستان نے جاذو کو اس کے حقوق کے بارے میں کیوں نہیں بتایا؟ ویانا کنونشن کے مطابق، ہر گرفتار شخص کو اپنے قونصلیٹ سے رابطہ کرنے کا حق ہے، لیکن جاذو کو یہ بتایا ہی نہیں گیا۔ دوسرا، پاکستان نے بھارت کو جاذو کی گرفتاری کے تین ہفتے بعد کیوں بتایا، جب کہ قانون کہتا ہے کہ یہ فوراً ہونا چاہیے؟ تیسرا، پاکستان نے بھارت کے قونصلر افسران کو جاذو سے ملنے کیوں نہیں دیا؟

یہ سب سوالات آئی سی جے کے سامنے رکھے گئے۔ پاکستان کا دعویٰ تھا کہ جاذو کے جاسوسی کے الزامات کی وجہ سے اسے یہ حقوق نہیں دیے جا سکتے تھے۔ لیکن آئی سی جے نے کہا کہ ویانا کنونشن میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے۔ یہ شک اور سوالات جاذو کے کیس کو مضبوط کرتے گئے۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ
17 جولائی 2019 کو، آئی سی جے نے اپنا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے کہا کہ پاکستان نے ویانا کنونشن کے تین قوانین توڑے: پہلے، جاذو کو اس کے حقوق کے بارے میں نہیں بتایا؛ دوسرے، بھارت کو فوراً نہیں بتایا؛ اور تیسرے، بھارت کے قونصلر افسران کو جاذو سے ملنے سے روکا۔ آئی سی جے نے پاکستان کو حکم دیا کہ وہ جاذو کے کیس کا دوبارہ جائزہ لے، اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کے حقوق کا اثر اس کے فیصلے پر پورا دیکھا جائے۔ ساتھ ہی، جاذو کی سزائے موت پر روک لگا دی گئی۔

آئی سی جے کا یہ فیصلہ شک کے اصول پر مبنی تھا: اگر کسی کیس میں ذرا سا بھی شک ہو، تو فیصلہ ملزم کے حق میں ہونا چاہیے۔ یہ قانونی اصول، کہ “100 مجرم چھوٹ جائیں، لیکن ایک بے گناہ کو سزا نہ ملے،” اس کیس میں صاف دکھا۔

سبق
اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، چاہے کوئی کتنا بڑا الزام ہو۔ اگر آپ کبھی ایسی مصیبت میں پھنس جائیں، تو اپنے حقوق جانیں اور ہر بات کو ریکارڈ کریں—چاہے وہ بیان ہو یا کاغذات۔ یہ آپ کے کیس کو مضبوط کر سکتا ہے۔

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *