انڈس واٹر ٹریٹی: بھارت کا اعلان، قانونی پہلو اور پاکستان کا مؤقف
کیا بھارت انڈس واٹر ٹریٹی کو یکطرفہ طور پر ختم کر سکتا ہے؟ اس قانونی بلاگ میں جانیں معاہدے کی تاریخ، عدالتی فیصلے، اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں مکمل تجزیہ۔ تحریر
پانی کا بہاؤ صرف زمین نہیں، تاریخ، سیاست اور قانون بھی بہا لے جاتا ہے
سن1960میں بھارت اور پاکستان نے ایک ایسا معاہدہ کیا جسے دنیا کے کامیاب ترین پانی کے معاہدوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا نام ہے
انڈس واٹر ٹریٹی، جو دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے پانی کو دونوں ممالک میں تقسیم کرتا ہے۔ لیکن اپریل2025
میں بھارت نے اعلان کیا کہ وہ اس معاہدے کو معطل کر رہا ہے، جس سے یہ سوال اٹھا:کیا بھارت قانونی طور پر ایسا کر سکتا ہے؟
آئیں اس معاہدے کی کہانی، عدالتوں کے فیصلے، اور عالمی قوانین کی روشنی میں اس تنازع کا جائزہ لیتے ہیں۔
تاریخی پس منظر: پانی کا پہلا جھگڑا 🕰
1947 کی تقسیم ہند کے بعد، اگرچہ زمین کی تقسیم ہو گئی، لیکن دریاؤں کی تقسیم کا کوئی بندوبست نہ تھا۔ مارچ 1948 میں بھارت نے اچانک راوی اور ستلج دریاؤں کا پانی پاکستان کی طرف بند کر دیا، جس سے پنجاب کی نہریں خشک ہو گئیں۔ اس واقعے نے پاکستان کو شدید خطرے میں ڈال دیا اور دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوئی۔
یہ بحران اتنا سنجیدہ تھا کہ ورلڈ بینککو ثالث بن کر سامنے آنا پڑا۔ تقریباً9سال کی طویل گفت و شنید کے بعد،19ستمبر1960کو صدر ایوب خان، وزیر اعظم جواہر لال نہرو، اور ورلڈ بینک کے صدر یوجین بلیک نےانڈس واٹر ٹریٹیپر دستخط کیے۔
معاہدے کی اہم شقیں 📑
معاہدے کے مطابق:
تین مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب) پاکستان کو دیے گئے
تین مشرقی دریا (راوی، بیاس، ستلج) بھارت کے حوالے ہوئے
بھارت کو مغربی دریاؤں پر مخصوص حدود میں پن بجلی بنانے کی اجازت دی گئی، لیکن پانی کا بہاؤ موڑنے کی ممانعت تھی
تنازعات کے حل کے لیے ایک جامع نظام بنایا گیا:
پانی کے کمیشن
نیوٹرل ایکسپرٹ
ثالثی عدالت (PCA
عدالتی اور ثالثی فیصلے: قانون کہاں کھڑا ہے؟ ⚖️
کشن گنگا کیس – 2013 📌
بھارت نے کشن گنگا دریا پر ہائیڈرو پاور پروجیکٹ شروع کیا۔ پاکستان نے اعتراض کیا کہ اس سے مغربی دریاؤں کا قدرتی بہاؤ متاثر ہو گا۔ معاملہ عالمی ثالثی عدالت (PCA) میں گیا۔
فیصلہ:
بھارت بجلی بنا سکتا ہے، مگر پانی کا مکمل بہاؤ نہیں موڑ سکتا
پاکستان کا مؤقف جزوی طور پر تسلیم کیا گیا
حوالہ: PCA Case No. 2010-21, Hague
بگلیہار ڈیم – 2007 📌
پاکستان نے بھارت کے بگلیہار ڈیم پر اعتراض کیا۔ معاملہ نیوٹرل ایکسپرٹ پروفیسر ریمنڈ لا فیٹ کے پاس گیا۔
فیصلہ:
بھارت کو کچھ تکنیکی ترامیم کے ساتھ ڈیم جاری رکھنے کی اجازت دی گئی
معاہدے کے اندر رہ کر فیصلہ سنایا گیا
بین الاقوامی قانون: انڈس واٹر ٹریٹی کی قانونی حیثیت 🌐
اگرچہ انڈس واٹر ٹریٹی 1960 میں ہوئی، لیکن آج معاہدوں کی تشریح ویانا کنونشن برائے معاہدات (1969) کے تحت کی جاتی ہے۔
آرٹیکل بارہ: معاہدے کا خاتمہ یا ترمیم
انڈس واٹر ٹریٹی کے آرٹیکل بارہ (3) کے تحت کوئی ترمیم باہمی رضامندی سے ہو سکتی ہے۔
آرٹیکل بارہ (4) کے مطابق، معاہدہ صرف دونوں فریقین کے اتفاق سے ختم ہو سکتا ہے۔
ویانا کنونشن آرٹیکل 26: Pacta Sunt Servanda
“ہر معاہدہ واجب التعمیل ہے، اور اس پر نیک نیتی سے عمل ہونا چاہیے”
ویانا کنونشن آرٹیکل 60
معاہدہ صرف تب معطل یا ختم کیا جا سکتا ہے جب:
اس کی بنیادی شقوں کی کھلی خلاف ورزی ہو
دونوں فریق رضامند ہوں
یا انتہائی غیر معمولی حالات ہوں
بھارت کا حالیہ مؤقف ان شرائط پر پورا نہیں اترتا۔
بھارت کا حالیہ اعلان: یکطرفہ فیصلہ یا قانونی خلاف ورزی؟ 🚨
23 اپریل 2025 کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے پہلگام میں ایک دہشت گرد حملے کے بعد، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے، بھارت نے انڈس واٹر ٹریٹی معطل کرنے کا اعلان کیا۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر لگایا اور کہا کہ جب تک سرحد پار دہشت گردی بند نہ ہو، معاہدہ معطل رہے گا۔
تاہم:
انڈس واٹر ٹریٹی میں ایسی کوئی شق موجود نہیں جو یکطرفہ خاتمے یا معطلی کی اجازت دے
بھارت نے ماضی میں اسی معاہدے کے تحت تنازعات حل کروائے، جیسے کشن گنگا کیس
معاہدے کا خاتمہ صرف دو طرفہ اتفاق سے ممکن ہے
بھارت نے ورلڈ بینک کو اس معطلی سے آگاہ نہیں کیا، جو معاہدے کا سہولت کار ہے
پاکستان کیا کر سکتا ہے؟ ✅
تنازع کے حل کا عمل دوبارہ شروع کر سکتا ہے (نیوٹرل ایکسپرٹ یا ثالثی عدالت)
عالمی اداروں سے رجوع کر سکتا ہے (مثلاً اقوام متحدہ)
بین الاقوامی دباؤ کے ذریعے بھارت کو معاہدے کی پاسداری پر مجبور کر سکتا ہے
مزید پڑھیں: https://verdicttales.com/india-suspends-indus-waters-treaty/.
کلیدی نتائج 📌
انڈس واٹر ٹریٹی ایک مضبوط قانونی معاہدہ ہے جو یکطرفہ معطلی یا خاتمے کی اجازت نہیں دیتا۔
بھارت کا 2025 کا اعلان بین الاقوامی قانون کے تحت متنازع ہے۔
پاکستان کے پاس عالمی فورمز، جیسے ورلڈ بینک یا ثالثی عدالت، سے رجوع کرنے کے اختیارات ہیں۔
معاہدے کی خلاف ورزی خطے کی زراعت، توانائی، اور امن کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔
نتیجہ: پانی صرف وسائل کا نہیں، اصولوں کا بھی مسئلہ ہے 📚
انڈس واٹر ٹریٹی صرف ایک معاہدہ نہیں، یہ ایک امتحان ہے کہ ریاستیں عالمی قوانین کا احترام کرتی ہیں یا نہیں۔ بھارت کی جانب سے اس معاہدے کو معطل یا ختم کرنے کی کوشش نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ دنیا کے تمام پانی کے معاہدوں کے لیے بھی ایک خطرناک مثال بن سکتی ہے۔ آپ اس تنازع کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ اپنی رائے نیچے شیئر کریں!
Written by Muhammad Asif
www.verdicttales.com
www.worldbank.org