**کیا غیر ملکی مشتبہ دہشت گردوں کی غیر معینہ مدت کے لیے حراست جائز ہے؟
**کیا غیر ملکی مشتبہ دہشت گردوں کی غیر معینہ مدت کے لیے حراست جائز ہے؟

کیا غیر ملکی مشتبہ دہشت گردوں کی غیر معینہ مدت کے لیے حراست جائز ہے؟

ایک تاریخی مقدمے نے انسانی حقوق اور قومی سلامتی کے درمیان توازن کے سوال کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔ *A (FC) and others v. Secretary of State for the Home Department* ([2004] UKHL 56) میں ہاؤس آف لارڈز نے فیصلہ دیا کہ اینٹی ٹیررزم، کرائم اینڈ سیکیورٹی ایکٹ 2001 کے سیکشن 23 کے تحت غیر ملکی مشتبہ دہشت گردوں کو غیر معینہ مدت کے لیے حراست میں رکھنا یورپی کنونشن آن ہیومن رائٹس (ECHR) کے آرٹیکل 5(1) سے مطابقت نہیں رکھتا، جو ہر فرد کو آزادی اور تحفظ کا حق دیتا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف برطانیہ کی قانونی تاریخ میں ایک سنگ میل ہے بلکہ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انسانی حقوق کے تحفظ کی اہمیت کو بھی واضح کرتا ہے۔

**مقدمے کے حالات**

11 ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملوں کے بعد، برطانیہ کی حکومت نے دہشت گردی کے بڑھتے خطرات سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کیے۔ ان اقدامات میں اینٹی ٹیررزم، کرائم اینڈ سیکیورٹی ایکٹ 2001 کا حصہ 4 شامل تھا، جو غیر ملکی شہریوں کو، جنہیں دہشت گردی میں ملوث ہونے کا شبہ ہو، غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا تھا، اگر انہیں ملک بدر نہ کیا جا سکے۔ اس قانون کے تحت نو غیر ملکی شہریوں کو دسمبر 2001 اور فروری 2002 میں حراست میں لیا گیا، جن پر کوئی فوجداری الزامات عائد نہیں کیے گئے تھے اور نہ ہی ان کے خلاف مقدمہ چلانے کا کوئی امکان تھا۔

یہ تمام اپیل کنندہ غیر ملکی شہری تھے، جنہیں سیکشن 21 کے تحت مشتبہ بین الاقوامی دہشت گردکے طور پر تصدیق کیا گیا تھا۔ ان کی حراست کی وجہ یہ تھی کہ انہیں ملک بدر نہیں کیا جا سکتا تھا، کیونکہ ان کے آبائی ممالک میں انہیں تشدد یا غیر انسانی سلوک کا خطرہ تھا، جو ECHR کے آرٹیکل 3 کی خلاف ورزی ہوتی۔ تاہم، ان اپیل کنندوں نے اپنی حراست کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ یہ ECHR کے آرٹیکل 5(1) اور آرٹیکل 14 (امتیازی سلوک سے تحفظ) سے متصادم ہے۔ ان کا موقف تھا کہ یہ قانون غیر ملکی شہریوں کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بناتا ہے، جبکہ اسی طرح کے شبہات کے حامل برطانوی شہریوں کو حراست میں نہیں لیا جاتا۔

**عدالت کا فیصلہ**

ہاؤس آف لارڈز نے، لارڈ بنگھم آف کارن ہل کی سربراہی میں، اکثریتی فیصلے میں (لارڈ واکنگتن کے اختلاف کے ساتھ) قرار دیا کہ:

1. **عوامی ہنگامی حالت کا وجود**: عدالت نے تسلیم کیا کہ 11 ستمبر کے حملوں کے بعد برطانیہ کو القاعدہ سے منسلک دہشت گردی کا ایک سنگین خطرہ لاحق تھا، جو ECHR کے آرٹیکل 15 کے تحت عوامی ہنگامی حالتکے طور پر derogation (مستثنیٰ) کی بنیاد بن سکتا تھا۔ تاہم، عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ derogation کے اقدامات حالت کے تقاضوں کے مطابق سختی سے ضروریہونے چاہئیں۔

 

2. **امتیازی سلوک اور عدم تناسب**: عدالت نے پایا کہ سیکشن 23 صرف غیر ملکی شہریوں کو حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے، جبکہ اسی طرح کے خطرات پیش کرنے والے برطانوی شہریوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا۔ یہ امتیازی سلوک ECHR کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی تھا، کیونکہ دونوں گروہوں (غیر ملکی اور برطانوی مشتبہ دہشت گرد) کی صورتحال ایک جیسی تھی، اور اس فرق کے لیے کوئی معقول جواز پیش نہیں کیا گیا۔ مزید برآں، عدالت نے یہ بھی پایا کہ یہ حراست سختی سے ضرورینہیں تھی، کیونکہ برطانوی شہریوں کے خلاف اسی طرح کے اقدامات کے بغیر خطرے سے نمٹا جا رہا تھا۔

 

3. **قانون کی عدم مطابقت**: عدالت نے فیصلہ دیا کہ Derogation Order 2001 اور اینٹی ٹیررزم، کرائم اینڈ سیکیورٹی ایکٹ 2001 کا سیکشن 23 ECHR کے آرٹیکل 5(1) اور آرٹیکل 14 سے مطابقت نہیں رکھتا۔ لہٰذا، عدالت نے Derogation Order کو منسوخ کر دیا اور سیکشن 23 کو انسانی حقوق ایکٹ 1998 کے تحت غیر مطابقت کا اعلان کیا۔

**اہم نکات**

عدالت نے واضح کیا کہ آزادی کا حق ایک بنیادی انسانی حق ہے، اور اسے صرف قانون کے مطابق اور مخصوص حالات میں محدود کیا جا سکتا ہے۔ غیر معینہ مدت کی حراست، بغیر کسی فوجداری الزام یا مقدمے کے، اس حق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

یہ فیصلہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انسانی حقوق کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، خاص طور پر جب غیر ملکی شہریوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ قومی سلامتی کے نام پر اقدامات کو تناسب اور جواز کے معیار پر پورا اترنا چاہیے، اور انہیں غیر ضروری طور پر بنیادی حقوق کو محدود نہیں کرنا چاہیے۔

**نتائج**

اس فیصلے نے برطانیہ کی پارلیمنٹ کو مجبور کیا کہ وہ اینٹی ٹیررزم، کرائم اینڈ سیکیورٹی ایکٹ 2001 کے حصہ 4 پر نظرثانی کرے۔ نتیجتاً، سیکشن 23 کے تحت حراست کے اختیارات کو ختم کر دیا گیا، اور اس کی جگہ کنٹرول آرڈرز کا نظام متعارف کرایا گیا، جو برطانوی اور غیر ملکی مشتبہ افراد دونوں پر یکساں طور پر اعمال ہوتا تھا۔ یہ مقدمہ آج بھی قومی سلامتی اور انسانی حقوق کے درمیان توازن کے بارے میں عالمی بحث کا ایک اہم حوالہ ہے۔

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *