کیا آن لائن پلیٹ فارم کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ہو سکتا ہے؟
کیا آن لائن پلیٹ فارم کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ہو سکتا ہے؟

کیا آن لائن پلیٹ فارم کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ہو سکتا ہے؟

ایک تاریخی عدالتی فیصلہ جس نے ڈیجیٹل دنیا کو ہلا کر رکھ دیا! ویاکام بمقابلہ یوٹیوب کیس میں امریکی عدالت نے فیصلہ دیا کہ کیا یوٹیوب جیسے پلیٹ فارم کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کے ذمہ دار ہیں یا نہیں۔ یہ بلاگ اس قانونی جنگ کی کہانی اور اس کے اثرات کو سادہ اور دلچسپ انداز میں بیان کرتا ہے۔

مقدمے کے حالات: ڈیجیٹل دور کی ایک سنسنی خیز جنگ

سن 2005 میں جب یوٹیوب نے اپنا سفر شروع کیا، کسی نے نہ سوچا تھا کہ یہ ویب سائٹ ایک دن قانونی تنازعات کا مرکز بن جائے گی۔ یوٹیوب، جو گوگل کے زیرِ ملکیت ہے، ایک ایسی جگہ تھی جہاں کوئی بھی مفت میں ویڈیوز اپ لوڈ کر سکتا تھا۔ موسیقی، فلمیں، مزاحیہ کلپس—ہر چیز اس پلیٹ فارم پر доступ تھی۔ لیکن اس آزادی نے ایک بڑا سوال کھڑا کیا: کیا آن لائن پلیٹ فارم کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ہو سکتا ہے؟

ویاکام انٹرنیشنل، ایک بڑی میڈیا کمپنی جس کے پاس مشہور ٹی وی شوز، فلمیں اور موسیقی کے کاپی رائٹس تھے، نے الزام لگایا کہ یوٹیوب پر “ہزاروں” ویڈیوز ان کے کاپی رائٹ شدہ مواد سے چوری کی گئیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یوٹیوب نہ صرف اس غیر قانونی مواد کو ہٹانے میں ناکام رہا، بلکہ اس سے اشتہارات کے ذریعے مالی فائدہ بھی اٹھایا۔ ویاکام کے وکلاء نے کہا کہ یوٹیوب کو معلوم تھا کہ اس کے پلیٹ فارم پر غیر قانونی مواد موجود ہے، لیکن اس نے دانستہ طور پر آنکھیں بند رکھیں۔

دوسری طرف، یوٹیوب نے کہا کہ وہ صرف ایک پلیٹ فارم ہے جو صارفین کے اپ لوڈ کردہ مواد کو ہوسٹ کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل ملینیم کاپی رائٹ ایکٹ (DMCA) کے تحت وہ “سیف ہاربر” تحفظ کے مستحق ہیں، جو انہیں کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کے دعووں سے بچاتا ہے۔ کیا آن لائن پلیٹ فارم کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ہو سکتا ہے؟ یہ سوال اس مقدمے کا محور بن گیا۔

یہ تنازعہ نیویارک کے مصروف شہر میں شروع ہوا، جہاں ویاکام نے یوٹیوب کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ یہ کیس ڈیجیٹل دور کی سب سے بڑی قانونی لڑائیوں میں سے ایک تھا، کیونکہ اس کا فیصلہ نہ صرف یوٹیوب بلکہ فیس بک، و concurr جیسے دیگر آن لائن پلیٹ فارمز پر بھی اثر انداز ہونا تھا۔

قانونی کارروائی: عدالت میں ایک ڈیجیٹل ڈرامہ

مقدمہ جنوبی نیویارک کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں شروع ہوا۔ ویاکام نے اپنے وکلاء کے ذریعے دلائل دیے کہ یوٹیوب نے:
• جان بوجھ کر کاپی رائٹ شدہ مواد کو اپنے پلیٹ فارم پر رہنے دیا۔
• اس مواد سے اشتہارات کے ذریعے مالی فائدہ اٹھایا۔
• اس کے پاس غیر قانونی مواد کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت تھی، لیکن اس نے کچھ نہ کیا۔

ویاکام کے وکلاء نے دعویٰ کیا کہ یوٹیوب کو “سرخ جھنڈوں” (red flags) کے ذریعے معلوم تھا کہ اس کے پلیٹ فارم پر کاپی رائٹ شدہ مواد موجود ہے، لیکن اس نے فوری ایکشن نہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ یوٹیوب کا کاروباری ماڈل ہی اس غیر قانونی مواد پر منحصر تھا، کیونکہ یہ صارفین کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا۔ کیا آن لائن پلیٹ فارم کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ہو سکتا ہے؟ ویاکام کا موقف تھا کہ ہاں، یوٹیوب ذمہ دار ہے۔

دوسری طرف، یوٹیوب کے وکلاء نے DMCA کے سیف ہاربر پروویژن کا سہارا لیا۔ انہوں نے کہا کہ:
• یوٹیوب کے پاس مخصوص غیر قانونی ویڈیوز کا “حقیقی علم” (actual knowledge) نہیں تھا۔
• جب بھی ویاکام نے مخصوص ویڈیوز کی نشاندہی کی، یوٹیوب نے فوری طور پر انہیں ہٹا دیا۔

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *