ایک پاکستانی عدالت کا تاریخی فیصلہ جو عورتوں کے حقوق کو اجاگر کرتا ہے۔ خُلع کے قانونی تنازعے پر فیصلے نے پاکستانی معاشرے میں نئی بحث چھیڑ دی۔
شریعت پٹیشن 16/2022 میں فیڈرل شریعت کورٹ نے خُلع کے حق پر اہم فیصلہ دیا۔ کیا عورت بغیر شوہر کی رضامندی کے خُلع لے سکتی ہے؟ پاکستانی قانون اور اسلامی شریعت کی روشنی میں جانیں۔
جب سعیدہ بیگم نے اپنے شوہر کے ساتھ زندگی کو ناممکن پایا، تو اس نے ایک قدم اٹھایا جو نہ صرف اس کی زندگی بدل دے گا بلکہ پاکستانی عدالتوں میں ایک نئی قانونی بحث کا آغاز کرے گا۔ یہ کہانی ہے جھنگ کے ایک چھوٹے سے گھر کی، جہاں سعیدہ نے اپنے شوہر حاجی سیف الرحمٰن سے خُلع مانگنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن سوال یہ تھا کہ کیا خُلع کا حق عورت کا بنیادی حق ہے؟ کیا وہ اسے بغیر شوہر کی رضامندی حاصل کر سکتی ہے؟
یہ واقعہ 2022 کا ہے، جب سعیدہ، جن کا اصل نام نگہت یاسمین ہے، نے جھنگ کی فیملی کورٹ میں خُلع کی درخواست دائر کی۔ سعیدہ کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ مزید نہیں رہ سکتیں۔ انہوں نے کوئی سنگین الزامات نہیں لگائے، جیسے کہ بدسلوکی یا تشدد، بلکہ صرف اتنا کہا کہ ان کا دل اب اس رشتے میں نہیں رہا۔ پاکستانی معاشرے میں یہ ایک غیر معمولی بات تھی، کیونکہ روایتی طور پر عورتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہر حال میں رشتے کو نبھائیں۔
فیملی کورٹ نے سعیدہ کی درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے پہلے صلح کی کوشش کی، لیکن جب بات نہ بنی تو عدالت نے ویسٹ پاکستان فیملی کورٹس ایکٹ 1964 (ترمیم شدہ 2015) کی سیکشن 10(5) کے تحت خُلع کا فیصلہ سنا دیا۔ اس فیصلے کے مطابق، سعیدہ کو اپنے شوہر کو مہر کا 25 فیصد حصہ واپس کرنا تھا۔ لیکن سیف الرحمٰن نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور لاہور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی۔
لاہور ہائی کورٹ نے 20 ستمبر 2022 کو سیف کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ مایوس ہو کر سیف نے فیڈرل شریعت کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ان کا موقف تھا کہ فیملی کورٹ کا فیصلہ اسلامی شریعت کے خلاف ہے، کیونکہ خُلع کے لیے شوہر کی رضامندی ضروری ہے۔ کیا خُلع کا حق عورت کا بنیادی حق ہے؟ یہ سوال اب شریعت کورٹ کے سامنے تھا۔
قانونی کارروائی
فیملی کورٹ جھنگ نے 18 مئی 2022 کو اپنا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے سعیدہ کے بیان کو بنیاد بنایا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اللہ کی مقرر کردہ حدود میں رہ کر زندگی نہیں گزار سکتیں۔ عدالت نے صلح کی کوشش کی، لیکن جب یہ ناکام ہوئی تو سیکشن 10(5) کے تحت خُلع کا حکم جاری کر دیا۔ اس فیصلے میں سعیدہ کو مہر کا 25 فیصد حصہ واپس کرنے کا کہا گیا۔
سیف الرحمٰن نے اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ ان کے وکیل نے دلیل دی کہ خُلع کے لیے شوہر کی رضامندی ضروری ہے، اور فیملی کورٹ نے سیکشن 10(5) پر غلط طور پر انحصار کیا، جو کہ فیڈرل شریعت کورٹ کے ایک پچھلے فیصلے (PLD 2022 FSC 25) میں اسلامی شریعت کے منافی قرار دی جا چکی تھی۔ لیکن ہائی کورٹ نے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے رٹ پٹیشن کو خارج کر دیا۔
اب کیس فیڈرل شریعت کورٹ کے سامنے تھا۔ سیف نے خود اپنی طرف سے دلائل دیے۔ انہوں نے قرآن کی آیات اور احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خُلع کے لیے شوہر کی رضامندی لازمی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فیملی کورٹ نے سیکشن 10(5) پر عمل کر کے غلطی کی، جو کہ 1 مئی 2022 سے غیر موثر تھی۔ لیکن شریعت کورٹ نے اس مقدمے کو ایک بڑے تناظر میں دیکھا۔ کیا خُلع کا حق عورت کا بنیادی حق ہے؟ یہ سوال پاکستانی قانون اور اسلامی شریعت کے تقاطع پر کھڑا تھا۔
عدالت کا فیصلہ اور وجوہات
فیڈرل شریعت کورٹ نے 19 ستمبر 2023 کو اپنا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے سیف کی درخواست کو مسترد کر دیا، لیکن اس کے ساتھ ہی خُلع کے بارے میں کئی اہم نکات کو واضح کیا۔ عدالت نے کہا کہ خُلع کا حق عورت کا بنیادی حق ہے، اور اسے حاصل کرنے کے لیے شوہر کی رضامندی ضروری نہیں۔ عدالت کے فیصلے کے اہم نکات یہ ہیں:
خُلع کا حق عورت کا بنیادی حق ہے:
عدالت نے سورہ البقرہ کی آیت 229 اور متعدد احادیث کا حوالہ دیا، جن میں نبی کریم ﷺ نے خواتین کو خُلع کا حق دیا تھا۔ مثال کے طور پر، ثابت بن قیس کی بیوی جمیلہ بنت سلوٰل نے نبی کریم ﷺ سے خُلع مانگا تھا، اور آپ نے انہیں مہر واپس کرنے کی شرط پر خُلع دے دی۔
شوہر کی رضامندی کی ضرورت نہیں:
عدالت نے واضح کیا کہ اگر عورت یہ بیان دے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اللہ کی حدود میں رہ کر زندگی نہیں گزار سکتی، تو عدالت کو خُلع کا فیصلہ دینا چاہیے۔ اس کے لیے کسی اضافی ثبوت یا شوہر کی رضامندی کی ضرورت نہیں۔
مہر کی واپسی کی شرائط:
عدالت نے کہا کہ خُلع کے لیے عورت کو مہر یا اس کا کچھ حصہ واپس کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن اگر شوہر کی بدسلوکی یا غلطی ثابت ہو، تو عدالت مہر کی واپسی کی مقدار کو کم کر سکتی ہے یا اسے مکمل طور پر معاف کر سکتی ہے۔
سیکشن 10(5) کا غلط استعمال:
عدالت نے تسلیم کیا کہ فیملی کورٹ نے سیکشن 10(5) پر انحصار کیا، جو کہ شریعت کورٹ کے پچھلے فیصلے میں غیر اسلامی قرار دی جا چکی تھی۔ لیکن اس غلطی کے باوجود، خُلع کا فیصلہ اسلامی شریعت کے مطابق تھا، کیونکہ سعیدہ نے اپنی مرضی سے مہر کا حصہ واپس کرنے کی پیشکش کی تھی۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے ہائی کورٹس اور ماتحت عدالتوں کے لیے پابند ہیں، جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 203GG میں درج ہے۔ لیکن چونکہ سیف کی درخواست ذاتی نوعیت کی تھی، اس لیے عدالت اسے قبول نہیں کر سکی۔
سبق اور نتیجہ
اس فیصلے سے پاکستانی معاشرے کے لیے کئی اہم سبق ملے۔ سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ خُلع کا حق عورت کا بنیادی حق ہے، جسے کوئی عدالت یا معاشرتی دباؤ ختم نہیں کر سکتا۔ یہ فیصلہ پاکستانی خواتین کے لیے ایک امید کی کرن ہے، جو اکثر روایتی پابندیوں کی وجہ سے اپنے حقوق سے محروم رہتی ہیں۔
عدالتی نظام کے لیے یہ پیغام ہے کہ اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے میں کوئی سستی نہیں برتی جانی چاہیے۔ فیملی کورٹس کو چاہیے کہ وہ خُلع کے مقدمات میں عورت کے بیان کو سنجیدگی سے لیں اور غیر ضروری تاخیر سے بچیں۔
عام پاکستانی کے لیے اس فیصلے کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ہر عورت کو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے سے قاصر ہے، تو وہ عدالت سے خُلع مانگ سکتی ہے، بغیر اس خوف کے کہ اسے معاشرتی یا قانونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اخلاقی طور پر، یہ فیصلہ ہمیں سکھاتا ہے کہ شادی ایک باہمی رشتہ ہے، جس میں دونوں فریقوں کی رضامندی ضروری ہے۔ اگر ایک فریق اس رشتے کو جاری رکھنے کے لیے تیار نہیں، تو اسے زبردستی باندھنا نہ تو اسلامی ہے اور نہ ہی انسانی۔ کیا خُلع کا حق عورت کا بنیادی حق ہے؟ فیڈرل شریعت کورٹ نے اس سوال کا جواب واضح کر دیا: ہاں، یہ عورت کا بنیادی حق ہے۔
ڈس کلیمر:
یہ بلاگ اصل عدالتی فیصلے کا ترجمہ یا خلاصہ ہے، جس میں غلطیوں کا امکان ہو سکتا ہے۔ کسی بھی قانونی حوالے کے لیے اصل فیصلہ پڑھیں۔