Roe v. Wade: امریکی سپریم کورٹ نے 1973 میں فیصلہ دیا کہ اسقاط حمل عورت کا آئینی حق ہے۔ یہ فیصلہ کیسے رازداری اور آزادی کے اصولوں پر مبنی ہے؟ جانیے اس تاریخی مقدمے کی کہانی اور اس کے اثرات۔
✍️. مقدمے کے حالات
1970 کی بات ہے، جب ایک اکیلی عورت، جین رو (جو کہ ایک فرضی نام تھا)، ڈیلس کاؤنٹی، ٹیکساس میں رہتی تھی۔ وہ حاملہ تھی، لیکن اس کی زندگی کو حمل سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ ٹیکساس کے سخت قوانین کے تحت اسقاط حمل غیر قانونی تھا، سوائے اس کے کہ عورت کی جان بچانے کے لیے ضروری ہو۔ جین رو ایک محفوظ اور قانونی اسقاط حمل چاہتی تھی، لیکن وہ نہ تو ٹیکساس میں یہ سہولت حاصل کر سکتی تھی اور نہ ہی دوسرے ریاستوں میں جانے کے لیے اس کے پاس وسائل تھے۔ اس کی تنہائی، بے بسی، اور خوف اس کی کہانی کو ایک عالمگیر آواز دیتے ہیں۔
جین رو نے فیصلہ کیا کہ وہ خاموش نہیں رہے گی۔ اس نے ٹیکساس کے ضلعی اٹارنی، ہنری ویڈ، کے خلاف مقدمہ دائر کیا، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ ٹیکساس کے اسقاط حمل قوانین اس کے رازداری کے آئینی حق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک ڈاکٹر، جیمز ہالفورڈ، بھی شامل ہوئے، جن پر اسقاط حمل کے الزامات کے تحت مقدمات چل رہے تھے۔ ایک بے اولاد جوڑے، جان اور میری ڈو، نے بھی مقدمہ دائر کیا، یہ کہتے ہوئے کہ مستقبل میں حمل کی صورت میں وہ اسقاط حمل کا انتخاب کرنا چاہیں گے۔
یہ مقدمہ صرف جین رو کی ذاتی لڑائی نہیں تھا؛ یہ ہر اس عورت کی آواز بن گیا جو اپنے جسم اور مستقبل پر خود فیصلہ کرنے کا حق مانگتی تھی۔ جین رو کی کہانی ایک ایسی عورت کی جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے جو نظام کے خلاف اٹھی اور تاریخ بدل دی۔
✍️ . قانونی کارروائی (عدالتی سفر)
ابتدائی مقدمہ:
مارچ 1970 میں، جین رو نے ٹیکساس کے ضلعی اٹارنی کے خلاف فیڈرل عدالت میں مقدمہ دائر کیا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ ٹیکساس کے اسقاط حمل قوانین، جو صرف ماں کی جان بچانے کے لیے اسقاط حمل کی اجازت دیتے تھے، غیر آئینی ہیں کیونکہ وہ رازداری کے حق کو پامال کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ہالفورڈ نے دعویٰ کیا کہ یہ قوانین ان کے مریضوں کے حقوق اور ان کی طبی عملداری کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ڈو جوڑے نے کہا کہ یہ قوانین ان کے مستقبل کے انتخاب کو محدود کرتے ہیں۔
تین ججوں کے فیڈرل پینل نے مقدمات کو یکجا کیا اور سماعت کی۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ جین رو اور ڈاکٹر ہالفورڈ کو مقدمہ دائر کرنے کا حق ہے کیونکہ ان کے مفادات براہ راست متاثر ہو رہے تھے۔ تاہم، ڈو جوڑے کا مقدمہ مسترد کر دیا گیا کیونکہ ان کا دعویٰ فرضی اور ممکنہ حالات پر مبنی تھا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ٹیکساس کے قوانین غیر واضح اور ضرورت سے زیادہ وسیع ہیں، جو نویں اور چودھویں ترمیم کے تحت رازداری کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ عدالت نے قوانین کو غیر آئینی قرار دیا، لیکن ان کے نفاذ پر پابندی (انجکشن) لگانے سے انکار کر دیا۔
سپریم کورٹ کی سماعت:
جین رو اور دیگر نے فیڈرل عدالت کے فیصلے کے انجیکشن سے متعلق حصے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی، جبکہ ضلعی اٹارنی نے قوانین کو غیر آئینی قرار دینے کے خلاف کراس اپیل کی۔ مقدمہ دو بار بحث کے لیے پیش کیا گیا: دسمبر 1971 اور اکتوبر 1972۔ جین رو کی وکیل، سارہ ویڈنگٹن، نے دلیل دی کہ اسقاط حمل کا فیصلہ عورت کی رازداری کا بنیادی حق ہے، جو چودھویں ترمیم کے تحت تحفظ یافتہ ہے۔ ٹیکساس کے وکلاء نے کہا کہ ریاست کو جنین کی زندگی کے تحفظ کا حق ہے اور یہ کہ اسقاط حمل پر پابندی ایک جائز ریاستی مفاد ہے۔
اہم سوالات:
- کیا جین رو کا مقدمہ اب بھی قابل سماعت ہے، حالانکہ اس کی حمل کی مدت ختم ہو چکی تھی؟
- کیا ٹیکساس کے قوانین رازداری کے آئینی حق کی خلاف ورزی کرتے ہیں؟
- کیا جنین کو چودھویں ترمیم کے تحت “شخص” کے طور پر تحفظ حاصل ہے؟
✍️ . سپریم کورٹ کا فیصلہ اور اس کی وجوہات
22 جنوری 1973 کو، سپریم کورٹ نے 7-2 کے فیصلے میں ٹیکساس کے اسقاط حمل قوانین کو غیر آئینی قرار دیا۔ جسٹس ہیری بلیکمن نے اکثریتی رائے لکھی، جس میں درج ذیل نکات شامل تھے:
- جین رو کا حق مقدمہ: عدالت نے کہا کہ جین رو کا مقدمہ اب بھی قابل سماعت ہے، کیونکہ حمل ایک ایسی حالت ہے جو “دہرائی جا سکتی ہے، لیکن جائزہ لینے سے بچتی ہے۔” حمل کی مختصر مدت کی وجہ سے، اگر مقدمات اس وقت تک موٹ (بے اثر) ہو جائیں جب تک اپیل مکمل ہو، تو عورتوں کے حقوق کا تحفظ ناممکن ہو جائے گا۔
- رازداری کا حق: عدالت نے تسلیم کیا کہ چودھویں ترمیم کا ڈیو پراسیس کلاز رازداری کے حق کی حفاظت کرتا ہے، جس میں عورت کا اسقاط حمل کا فیصلہ شامل ہے۔ یہ حق مطلق نہیں، لیکن اسے محدود کرنے کے لیے ریاست کو “مضبوط ریاستی مفاد” (compelling state interest) ثابت کرنا ہوگا۔
- جنین کا مقام: عدالت نے فیصلہ دیا کہ جنین چودھویں ترمیم کے تحت “شخص” نہیں ہے۔ آئین میں “شخص” کا لفظ عام طور پر پیدائش کے بعد کے افراد پر लागو ہوتا ہے، اور کوئی واضح ثبوت نہیں کہ جنین کو یہ تحفظ حاصل ہے۔
- حمل کے مراحل اور ریاستی کردار: عدالت نے حمل کو تین مراحل (trimesters) میں تقسیم کیا:
- پہلا سہ ماہی (First Trimester): اس مرحلے میں، اسقاط حمل کا فیصلہ مکمل طور پر عورت اور اس کے ڈاکٹر پر چھوڑ دیا جائے گا۔ ریاست اس پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتی کیونکہ اسقاط حمل اس وقت زچگی سے زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔
- دوسرا سہ ماہی (Second Trimester): اس مرحلے میں، ریاست ماں کی صحت کے تحفظ کے لیے اسقاط حمل کے طریقہ کار کو منظم کر سکتی ہے، جیسے کہ ڈاکٹر کی قابلیت یا سہولت کے معیارات۔
- تیسرا سہ ماہی (Third Trimester): جنین کی حیات پذیری (viability) کے بعد، ریاست ممکنہ انسانی زندگی کے تحفظ کے لیے اسقاط حمل پر پابندی لگا سکتی ہے، سوائے اس کے کہ ماں کی جان یا صحت کو خطرہ ہو۔
- ٹیکساس قوانین کی خامی: عدالت نے کہا کہ ٹیکساس کا قانون، جو صرف ماں کی جان بچانے کے لیے اسقاط حمل کی اجازت دیتا ہے، ضرورت سے زیادہ وسیع ہے۔ یہ حمل کے مراحل یا دیگر مفادات (جیسے ماں کی صحت) کو مدنظر نہیں رکھتا، اس لیے یہ چودھویں ترمیم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
- ڈاکٹر ہالفورڈ اور ڈو جوڑا: عدالت نے فیصلہ دیا کہ ڈاکٹر ہالفورڈ کو فیڈرل عدالت میں ریلیف نہیں مل سکتا کیونکہ اس کے خلاف ریاستی مقدمات زیر التوا ہیں، اور وہ اپنا دفاع ریاستی عدالتوں میں کر سکتا ہے۔ ڈو جوڑے کا دعویٰ فرضی اور غیر حقیقی تھا، اس لیے ان کا مقدمہ مسترد کر دیا گیا۔
عدالت کی وجوہات:
- رازداری کا تاریخی تناظر: عدالت نے رازداری کے حق کو گریسوالڈ بمقابلہ کنیٹیکٹ (1965) اور ایزنسٹیڈ بمقابلہ بیرڈ (1972) جیسے مقدمات سے جوڑا، یہ کہتے ہوئے کہ یہ شادی، خاندان، اور تولیدی فیصلوں میں ذاتی آزادی کو تحفظ دیتا ہے۔
- ریاستی مفادات: عدالت نے تسلیم کیا کہ ریاست کو ماں کی صحت اور ممکنہ زندگی کے تحفظ کا حق ہے، لیکن یہ مفادات حمل کے مراحل کے ساتھ بڑھتے ہیں۔ پہلے سہ ماہی میں، عورت کا رازداری کا حق غالب ہے۔
- جنین کی حیثیت: عدالت نے کہا کہ زندگی کے آغاز کا سوال (conception, quickening, یا viability) فلسفیانہ اور مذہبی ہے، اور عدالت اس کا حتمی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ لہٰذا، جنین کو “شخص” کا درجہ دینا آئینی طور پر درست نہیں۔
عدالت نے ٹیکساس کے قوانین کو مکمل طور پر غیر آئینی قرار دیا کیونکہ وہ اسقاط حمل کو غیر ضروری طور پر محدود کرتے تھے۔ عدالت نے انجیکشن کے سوال پر فیصلہ نہ کیا، یہ فرض کرتے ہوئے کہ ٹیکساس حکام اس فیصلے کی پابندی کریں گے۔
✍️ . سبق اور نتیجہ
Roe v. Wade امریکی تاریخ کا ایک سنگ میل فیصلہ ہے جس نے عورتوں کے تولیدی حقوق کو نئی شکل دی۔ اس فیصلے سے کئی اہم سبق ملتے ہیں:
- رازداری کا بنیادی حق: یہ فیصلہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ رازداری کا حق صرف گھر یا شادی تک محدود نہیں، بلکہ یہ عورت کے جسم اور اس کے فیصلوں تک پھیلتا ہے۔ یہ ہر فرد کے لیے خودمختاری کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
- ریاستی حدود: عدالت نے واضح کیا کہ ریاست کے مفادات اہم ہیں، لیکن وہ عورت کے بنیادی حقوق پر غیر ضروری پابندیاں نہیں لگا سکتے۔ یہ توازن آج بھی قانونی بحثوں کا مرکز ہے۔
- حمل کے مراحل کا تصور: عدالت کا حمل کو تین مراحل میں تقسیم کرنے کا طریقہ ایک عملی حل تھا، جو عورت کے حقوق اور ریاستی مفادات کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔ یہ ماڈل دیگر ممالک کے لیے بھی ایک مثال بن سکتا ہے۔
- عام آدمی کے لیے پیغام: یہ فیصلہ ہر اس شخص کے لیے ایک سبق ہے جو اپنے حقوق کے لیے لڑتا ہے۔ جین رو کی کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ ایک فرد کی آواز نظام کو چیلنج کر سکتی ہے اور سماجی تبدیلی لا سکتی ہے۔
یہ فیصلہ نہ صرف قانونی ماہرین بلکہ ہر اس شخص کے لیے اہم ہے جو آزادی، رازداری، اور انصاف کے اصولوں پر یقین رکھتا ہے۔ اگرچہ Roe v. Wade کو 2022 میں Dobbs v. Jackson Women’s Health Organization کے فیصلے نے منسوخ کر دیا، لیکن اس کی تاریخی اہمیت ناقابلِ تردید ہے۔