ہاں، پاکستانی عدالتوں کو اختیار ہے کہ وہ پاکستان میں رہنے والے مقروض کے خلاف غیر ملکی لون کی وصولی کا مقدمہ سن سکیں، چاہے لون پاکستان سے باہر دیا گیا ہو۔
جانیں کہ کس طرح سپریم کورٹ نے ایک بینک کو پاکستان میں رہنے والے مقروض سے دبئی میں دیے گئے لون کی وصولی کا حق دیا — پاکستانی قانون کی ایک دلچسپ کہانی۔
یہ کہانی ایک پاکستانی بینک سے شروع ہوئی، جس نے دبئی میں ایک شخص کو لون دیا، لیکن جب ادائیگی کا وقت آیا تو مقروض پاکستان واپس آ گیا — اور پھر قانون نے اپنا راستہ بنایا۔
یہ ایک عام دن تھا جب ایک پاکستانی بینک نے دبئی میں اپنی برانچ کے ذریعے ایک شخص کو بڑی رقم بطور لون دی۔ وہ شخص پاکستان کا شہری تھا، لیکن دبئی میں کاروبار کر رہا تھا۔ لون کا معاہدہ طے پایا، کاغذات پر دستخط ہوئے، اور سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا۔ لیکن جب ادائیگی کا وقت آیا تو مقروض نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ وہ نہ صرف لون واپس کرنے سے قاصر رہا، بلکہ وہ دبئی چھوڑ کر پاکستان واپس آ گیا۔ بینک کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا تھا۔ کیا پاکستان میں رہنے والے مقروض کے خلاف غیر ملکی لون کی وصولی ممکن ہے؟ یہ سوال بینک کے ذہن میں بار بار گونج رہا تھا۔
بینک نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے پاکستان کی ایک خصوصی عدالت، جسے بینکنگ ک کورٹ کہا جاتا ہے، میں مقدمہ دائر کیا۔ بینک کا کہنا تھا کہ چونکہ مقروض اب پاکستان میں رہتا ہے، اس لیے پاکستانی عدالتوں کو اس کے خلاف غیر ملکی لون کی وصولی کا مقدمہ سننے کا اختیار ہے۔ لیکن مقروض نے اعتراض اٹھایا کہ لون تو دبئی میں دیا گیا تھا، اس لیے پاکستان کی عدالت اس کا فیصلہ کیسے کر سکتی ہے؟ یہ تنازعہ اتنا پیچیدہ تھا کہ معاملہ ہائی کورٹ تک جا پہنچا، اور پھر سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دی۔
عدالت کے سامنے بنیادی سوال یہ تھا: کیا پاکستان میں رہنے والے مقروض کے خلاف غیر ملکی لون کی وصولی کا مقدمہ پاکستانی عدالت میں چل سکتا ہے؟ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ایک طرف بینک اپنی رقم واپس مانگ رہا تھا، اور دوسری طرف مقروض کہہ رہا تھا کہ چونکہ لون پاکستان سے باہر دیا گیا، اس لیے پاکستانی عدالت اسے سننے کی مجاز نہیں۔ یہ ایک ایسی کشمکش تھی جس نے نہ صرف بینک اور مقروض کو، بلکہ پاکستانی قانون کے ماہرین کو بھی سوچ میں ڈال دیا۔
پاکستانی قانون میں ایک اہم دفعہ ہے جو اس صورتحال کو واضح کرتی ہے۔ فنانشل انسٹی ٹیوشنز (ریکوری آف فنانسز) آرڈیننس 2001، یا FIO 2001، کہتا ہے کہ کوئی بھی مالیاتی ادارہ، جو پاکستان میں رجسٹرڈ ہو، اپنے صارفین سے لون واپس لینے کے لیے بینکنگ کورٹ میں مقدمہ دائر کر سکتا ہے، چاہے لون پاکستان میں دیا گیا ہو یا باہر۔ اس قانون کے تحت صارف وہ ہے جو مالیاتی ادارے سے لون لیتا ہے، اور اگر وہ پاکستان میں موجود ہے تو عدالت اسے سن سکتی ہے۔ اس قانون نے بینک کے لیے ایک امید کی کرن روشن کی کہ پاکستان میں رہنے والے مقروض کے خلاف غیر ملکی لون کی وصولی ممکن ہے۔
عدالت نے اس معاملے کو بڑی باریک بینی سے دیکھا۔ اس نے پتہ کیا کہ کیا بینک واقعی ایک مالیاتی ادارہ ہے؟ جواب واضح تھا: ہاں، یہ پاکستان میں رجسٹرڈ ایک بینک تھا، جو دبئی میں بھی کاروبار کرتا تھا۔ پھر عدالت نے دیکھا کہ کیا مقروض پاکستان میں موجود ہے؟ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ مقروض پاکستان واپس آ چکا تھا اور یہیں رہ رہا تھا۔ آخر میں، عدالت نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا لون کی ادائیگی میں ناکامی ہوئی؟ اس کا جواب بھی ہاں میں تھا، کیونکہ مقروض نے تسلیم کیا کہ وہ لون واپس نہیں کر سکا۔ ان تمام حقائق نے مل کر یہ ثابت کیا کہ پاکستان میں رہنے والے مقروض کے خلاف غیر ملکی لون کی وصولی کا مقدمہ پاکستانی عدالت میں چل سکتا ہے۔
عدالت نے ایک اور اہم بات پر غور کیا: کیا غیر ملکی لون سود پر مبنی تھا، اور کیا یہ پاکستانی قانون کے خلاف ہے؟ مقروض نے کہا کہ چونکہ لون سود پر مبنی تھا، اس لیے یہ پاکستانی قانون کے تحت غیر قانونی ہے۔ لیکن عدالت نے واضح کیا کہ 2001 سے پہلے کے لون، جو سود پر مبنی تھے، قانونی طور پر قابل وصول ہیں۔ اس کے علاوہ، قانون کہتا ہے کہ اگر مقروض پاکستان میں ہے، تو عدالت اس کے خلاف غیر ملکی لون کی وصولی کا مقدمہ سن سکتی ہے، چاہے لون کہیں بھی دیا گیا ہو۔ اس فیصلے نے بینک کے حق میں ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔
عدالت نے ایک عالمی اصول کو بھی مدنظر رکھا جسے “کریڈیٹرز فالو ڈیبٹرز” کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ قرض دینے والا اپنے مقروض کا پیچھا کر سکتا ہے جہاں وہ موجود ہو۔ چونکہ مقروض پاکستان میں تھا، اس لیے پاکستانی عدالتوں کو اس کے خلاف غیر ملکی لون کی وصولی کا مقدمہ سننے کا پورا حق تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ جب تمام فریقین پاکستان میں موجود ہوں، تو پاکستان کی عدالتوں کا اس مقدمے پر سب سے زیادہ تعلق بنتا ہے۔ اس طرح، عدالت نے بینک کے حق میں فیصلہ سنایا اور مقدمہ دوبارہ بینکنگ کورٹ کو بھیج دیا تاکہ وہ اسے قانون کے مطابق حل کرے۔
یہ فیصلہ صرف ایک بینک اور ایک مقروض کی کہانی نہیں تھا۔ یہ پاکستانی قانون کی طاقت اور لچک کو ظاہر کرتا ہے۔ اس نے ثابت کیا کہ پاکستان میں رہنے والے مقروض کے خلاف غیر ملکی لون کی وصولی ممکن ہے، اگر تمام قانونی تقاضے پورے ہوں۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو ہر اس شخص کے لیے امید کی کرن ہے جو اپنے حقوق کے لیے قانون کا سہارا لیتا ہے۔
یہ کہانی سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک اصل فیصلے پر مبنی ہے، جو 2018 میں سنایا گیا۔
FAQs
کیا پاکستان میں رہنے والے مقروض کے خلاف غیر ملکی لون کی وصولی کا مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے؟
ہاں، اگر مقروض پاکستان میں رہتا ہو اور مالیاتی ادارہ پاکستان میں رجسٹرڈ ہو، تو بینکنگ کورٹ اس کے خلاف غیر ملکی لون کی وصولی کا مقدمہ سن سکتی ہے۔
کیا غیر ملکی لون سود پر مبنی ہونے کی وجہ سے پاکستان میں غیر قانونی ہے؟
نہیں، 2001 سے پہلے دیے گئے سود پر مبنی لون قانونی طور پر قابل وصول ہیں، اور پاکستان میں رہنے والے مقروض کے خلاف غیر ملکی لون کی وصولی ممکن ہے۔
پاکستان میں رہنے والے مقروض کے خلاف غیر ملکی لون کی وصولی کے لیے کون سی عدالت مجاز ہے؟
بینکنگ کورٹ، جو FIO 2001 کے تحت بنائی گئی ہے، پاکستان میں رہنے والے مقروض کے خلاف غیر ملکی لون کی وصولی کے مقدمات سننے کی مجاز ہے۔
کیا غیر ملکی لون کی وصولی کے لیے مقروض کا پاکستان میں ہونا ضروری ہے؟
ہاں، پاکستان میں رہنے والے مقروض کے خلاف غیر ملکی لون کی وصولی کا مقدمہ اسی صورت میں چل سکتا ہے جب مقروض پاکستان میں موجود ہو۔
کیا پاکستان میں رہنے والے مقروض کے خلاف غیر ملکی لون کی وصولی کا قانون ہر قسم کے لون پر
ہاں، FIO 2001 کے تحت ہر قسم کا لون، چاہے وہ سود پر مبنی ہو یا نہ ہو، قابل وصول ہے اگر مقروض پاکستان میں رہتا ہو۔
یہ بلاگ صرف عوامی آگاہی کے لیے ہے اور کسی بھی قسم کی قانونی مشاورت نہیں ہے۔ قانونی مشورے کے لیے کسی وکیل سے رابطہ کریں۔