کیا زخمی گواہ کی شہادت ہر حال میں سچی ہوتی ہے؟
کیا زخمی گواہ کی شہادت ہر حال میں سچی ہوتی ہے؟

کیا زخمی گواہ کی شہادت ہر حال میں سچی ہوتی ہے؟

یہ بلاگ پاکستان کی سپریم کورٹ کے اہم عدالتی فیصلے (Crl.A.No.181/2022) کا جائزہ لیتا ہے، جس میں خضر حیات کو قتل کے الزام سے بری کر دیا گیا۔ عدالت نے ثابت کیا کہ زخمی گواہ کی شہادت بھی بغیر تصدیق کے قابل اعتماد نہیں ہوتی، اور شک کا فائدہ ملزم کو ملنا چاہیے۔ 

**مقدمے کے حالات: ایک خونی رات کی کہانی** 

30 نومبر 2009 کی رات، جب خانویں کے علاقے حویلی کڑنگہ میں اندھیرا چھایا ہوا تھا، ایک دل دہلانے والا واقعہ پیش آیا۔ رات 9 بجے کے قریب، گاؤں کی گلیوں میں گولیوں کی آواز گونجی۔ غلام رسول نامی شخص کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا، جبکہ عابد حسین نامی ایک اور شخص زخمی ہوا۔ پولیس کے مطابق، یہ واقعہ ایک پرانی دشمنی کا نتیجہ تھا۔ دعویٰ کیا گیا کہ خضر حیات اور اس کے ساتھیوں نے مدعی محمد رمضان کی بیٹی نصرین کے اغوا کی وجہ سے یہ حملہ کیا۔ 

محمد رمضان نے پولیس کو بتایا کہ خضر حیات اور عامر شہزاد نے غلام رسول پر گولیاں برسائیں، جبکہ صدر ایوب نے عابد حسین پر کلہاڑی سے حملہ کیا۔ دیگر ملزمان، مقبول حسین، محمد یعقوب، اور آصف اقبال پر بھی الزام لگا، لیکن انہیں کوئی واضح کردار نہ دیا گیا۔ پولیس نے 1 دسمبر 2009 کو ایف آئی آر نمبر 240 درج کی، اور خضر حیات سمیت تمام ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا۔ 

یہ واقعہ خانویں کے گاؤں حویلی کڑنگہ میں پیش آیا، جو زرعی علاقہ ہے جہاں خاندانی دشمنیاں اور جھگڑے اکثر خونریزی کا باعث بنتے ہیں۔ اس پس منظر میں، یہ کیس نہ صرف ایک خاندان کی کہانی ہے بلکہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں پھیلی دشمنیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ 

**قانونی کارروائی: ٹرائل سے سپریم کورٹ تک** 

**1. ٹرائل کورٹ کا فیصلہ** 

ٹرائل کورٹ نے خضر حیات کو پاکستانی پینل کوڈ (PPC) کے سیکشن 302(b) کے تحت قتل کا مجرم قرار دیا اور اسے سزائے موت سنائی۔ عدالت نے تین گواہوںمحمد رمضان، محمد صادق، اور زخمی عابد حسینکی شہادتوں پر انحصار کیا۔ گواہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے رات کے وقت ٹارچ کی روشنی میں خضر حیات اور عامر شہزاد کو غلام رسول پر گولیاں چلاتے دیکھا، جبکہ صدر ایوب نے عابد حسین پر کلہاڑی سے حملہ کیا۔ 

**2. لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ** 

خضر حیات نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ (ملتان بنچ) میں چیلنج کیا۔ 18 اپریل 2017 کو ہائی کورٹ نے اس کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا، لیکن اس کی سزا کو برقرار رکھا۔ ہائی کورٹ نے یہ بھی نوٹ کیا کہ پروسیکیوشن کی جانب سے پیش کردہ محرک (بیٹی کے اغوا کا تنازع) ثابت نہیں ہوا۔ تاہم، عدالت نے عابد حسین کی زخمی حالت کو اس کی موجودگی کا ثبوت مانا۔ 

**3. سپریم کورٹ میں اپیل** 

خضر حیات نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ وکیل ایشا تسنیم نے دلائل دیے کہ گواہوں کی شہادتیں قابل اعتماد نہیں ہیں، کیونکہ

واقعہ رات کے وقت پیش آیا، اور ٹارچ کی موجودگی کا دعویٰ کیا گیا، لیکن پولیس نے کوئی ٹارچ برآمد نہیں کی۔ 

ایف آئی آر میں 14 گھنٹے کی تاخیر ہوئی، جو مشکوک ہے۔ 

دو ملزمان (عامر شہزاد اور صدر ایوب) کو بری کر دیا گیا، جو اسی گواہوں کی شہادتوں پر مبنی تھے۔ 

دوسری جانب، ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل طارق صدیقی نے استدلال کیا کہ عابد حسین کی زخمی حالت اس کی موجودگی کا ثبوت ہے، اور اس کی شہادت پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ 

**عدالت کا فیصلہ اور وجوہات** 

28 اپریل 2025 کو سپریم کورٹ نے خضر حیات کو بری کر دیا اور اس کی سزا کو کالعدم قرار دیا۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے شک کا فائدہ ملزم کو دیا۔ فیصلے کی اہم وجوہات درج ذیل ہیں

1. **زخمی گواہ کی شہادت کا جائزہ**: عدالت نے کہا کہ زخمی گواہ (عابد حسین) کی شہادت ہر حال میں سچی نہیں ماننی جاتی۔ چونکہ صدر ایوب، جس نے عابد پر حملہ کیا، بری ہو چکا تھا، اور متعلقہ ڈاکٹر کو پیش نہیں کیا گیا، اس لیے عابد کی شہادت بغیر تصدیق کے قابل اعتماد نہیں۔ سوال اٹھا: کیا زخمی گواہ کی شہادت ہر حال میں سچی ہوتی ہے؟ عدالت نے کہا کہ نہیں، اسے آزادانہ تصدیق کی ضرورت ہے۔ 

2. **ایف آئی آر میں تاخیر**: واقعہ 30 نومبر 2009 کی رات 9 بجے ہوا، لیکن ایف آئی آر اگلے دن دوپہر 1:05 بجے درج ہوئی، یعنی 14 گھنٹے کی تاخیر۔ اس تاخیر کی کوئی معقول وضاحت نہیں دی گئی، جس سے سازش یا غور و فکر کا شبہ پیدا ہوتا ہے۔ 

3. **ٹارچ کی عدم موجودگی**: گواہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ٹارچ کی روشنی میں ملزمان کو دیکھا، لیکن پولیس نے کوئی ٹارچ برآمد نہیں کی۔ اس سے گواہوں کی شناخت کے دعوے پر سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ رات کے اندھیرے میں ملزمان کو واضح طور پر دیکھ سکتے تھے؟ 

4. **گواہوں کی شہادتوں میں تضاد**: عدالت نے نوٹ کیا کہ جن گواہوں نے عامر شہزاد اور صدر ایوب کو مورد الزام ٹھہرایا، انہیں بری کر دیا گیا۔ ایسی صورت میں، وہی گواہ خضر حیات کے خلاف قابل اعتماد نہیں ہو سکتے جب تک کہ آزادانہ تصدیق نہ ہو، جو اس کیس میں موجود نہیں تھی۔ 

5. **محرک کا نہ ثابت ہونا**: پروسیکیوشن نے دعویٰ کیا کہ قتل کا محرک مدعی کی بیٹی کا اغوا تھا، لیکن ہائی کورٹ نے خود مانا کہ یہ محرک ثابت نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ جب پروسیکیوشن محرک پیش کرتی ہے اور اسے ثابت کرنے میں ناکام رہتی ہے، تو اس کا نقصان پروسیکیوشن کو اٹھانا پڑتا ہے۔ 

6. **شک کا فائدہ**: عدالت نے کہا کہ پروسیکیوشن اپنا کیس بغیر کسی معقول شک کے ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ پاکستانی قانون کے تحت، اگر کوئی شک باقی رہتا ہے، تو اس کا فائدہ ملزم کو ملتا ہے۔ 

**سبق اور نتیجہ** 

یہ عدالتی فیصلہ پاکستانی قانون اور عدالتی نظام کے لیے ایک اہم پیغام دیتا ہے۔ اس سے چند اہم اسباق ملتے ہیں

1. **زخمی گواہ کی شہادت کی حد**: یہ فیصلہ واضح کرتا ہے کہ زخمی گواہ کی شہادت ہر حال میں سچی نہیں ہوتی۔ اسے آزادانہ ثبوت سے تصدیق کی ضرورت ہے۔ یہ پولیس اور پراسیکیوٹرز کے لیے ایک سبق ہے کہ وہ گواہوں کی شہادت کو مضبوط ثبوتوں سے تقویت دیں۔ 

2. **شک کا فائدہ ملزم کا حق**: پاکستانی قانون میں شک کا فائدہ ملزم کو دینا ایک بنیادی اصول ہے۔ یہ فیصلہ اس اصول کی پاسداری کرتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ عدالت ملزم کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔ 

3. **پولیس کی ذمہ داری**: ایف آئی آر میں تاخیر اور ٹارچ جیسے اہم ثبوت کی عدم برآمدگی سے پولیس کی تفتیش پر سوال اٹھتے ہیں۔ یہ پولیس کے لیے ایک وارننگ ہے کہ تفتیش کو شفاف اور بروقت کرنا ضروری ہے۔ 

4. **عام پاکستانی کے لیے پیغام**: یہ فیصلہ ہر پاکستانی کو یہ بتاتا ہے کہ عدالتی نظام انصاف کے لیے موجود ہے۔ اگر آپ پر غلط الزام لگایا جاتا ہے، تو آپ عدالت سے انصاف مانگ سکتے ہیں۔ خضر حیات کی بریت اس بات کی مثال ہے کہ قانون کی بالادستی ہر حال میں برقرار رہنی چاہیے۔ 

یہ عدالتی فیصلہ ایک ایسی کہانی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ قانون کی نظر میں سچائی اور انصاف سب سے مقدم ہے۔ خضر حیات کی جدوجہد ہر اس شخص کے لیے ایک سبق ہے جو انصاف کے لیے لڑتا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف ملزم کے لیے، بلکہ پورے عدالتی نظام کے لیے ایک عظیم مثال ہے کہ کیا زخمی گواہ کی شہادت ہر حال میں سچی ہوتی ہے؟ جواب ہے: نہیں، جب تک اس کی تصدیق نہ ہو۔ 

**ڈس کلیمر** 

یہ بلاگ اصل عدالتی فیصلے کا ترجمہ یا خلاصہ ہے، جس میں غلطیوں کا امکان ہو سکتا ہے۔ کسی بھی قانونی حوالے کے لیے اصل فیصلہ پڑھیں۔

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *