کیا پاکستان میں سی سی ٹی وی فوٹیج تنہا سزا دلوا سکتی ہے؟
کیا پاکستان میں سی سی ٹی وی فوٹیج تنہا سزا دلوا سکتی ہے؟

کیا پاکستان میں سی سی ٹی وی فوٹیج تنہا سزا دلوا سکتی ہے؟

چاندنی رات کا دل دہلانے والا سانحہ

اسلام آباد کے ایک پرسکون علاقے میں، جہاں گلیوں میں رات کے سائے رقص کرتے ہیں، ایک دلخراش واقعہ پیش آیا۔ ایک نوجوان لڑکی، نور مقدم، اپنے دوست کے گھر گئی، لیکن وہ کبھی واپس نہ لوٹی۔ اس کے والد، ایک پریشان حال باپ، نے پولیس کو فون کیا جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی کی لاش اسی گھر سے ملی۔ سوال یہ تھا کہ کیا ہوا؟ کیا پاکستان میں سی سی ٹی وی فوٹیج تنہا سزا دلوا سکتی ہے؟ سپریم کورٹ کا فیصلہ اس سوال کا جواب دیتا ہے: ہاں، اگر فوٹیج مستند ہو اور اسے قانونی تقاضوں کے مطابق پیش کیا جائے۔

یہ کہانی صرف ایک سانحہ نہیں، بلکہ پاکستانی عدالتی نظام میں ڈیجیٹل ثبوتوں کی اہمیت کی عکاسی کرتی ہے۔ آئیے، اس مقدمے کی تفصیلات اور اس سوال کا جواب جانتے ہیں کہ کیا پاکستان میں سی سی ٹی وی فوٹیج تنہا سزا دلوا سکتی ہے؟

مقدمے کی داستان: ایک گھر، ایک جرم

20 جولائی 2021 کو اسلام آباد کے کوہسار پولیس اسٹیشن میں ایک ایف آئی آر درج ہوئی۔ شکایت کنندہ، ایک باپ، نے بتایا کہ اس کی بیٹی 19 جولائی سے لاپتہ تھی۔ رات 10 بجے، پولیس نے اسے اطلاع دی کہ ان کی بیٹی کی لاش ایک گھر سے ملی۔ یہ گھر ملزم، زاہد زکیر جعفر کا تھا۔ ابتدائی طور پر زاہد واحد ملزم تھا، لیکن بعد میں دیگر افراد بھی اس مقدمے میں شامل ہوئے۔

سی سی ٹی وی فوٹیج نے اس رات کے واقعات کو واضح کیا۔ فوٹیج میں دیکھا گیا کہ نور مقدم گھر کی پہلی منزل سے کود کر باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن وہ زخمی ہو کر گرتی ہیں۔ ملزم ان کا فون چھینتا ہے، انہیں ایک الماری میں بند کرتا ہے، اور پھر تشدد کے بعد انہیں گھر کے اندر لے جاتا ہے۔ یہ فوٹیج آخری بار نور کو زندہ دکھاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے: کیا پاکستان میں سی سی ٹی وی فوٹیج تنہا سزا دلوا سکتی ہے؟

عدالتی جنگ: ثبوتوں کی جانچ

ٹرائل کورٹ نے ملزم کو پاکستانی پینل کوڈ (PPC) کی دفعات 302 (قتل)، 376 (ریپ)، 364 (اغوا)، اور 342 (ناجائز حراست) کے تحت سزا سنائی۔ ملزم کو سزائے موت، عمر قید، اور جرمانوں کی سزا دی گئی۔ ملزم نے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کی، لیکن ہائی کورٹ نے سزاؤں کو برقرار رکھا اور ریپ کی سزا کو عمر قید سے سزائے موت میں تبدیل کر دیا۔

ملزم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، جہاں اس کے وکیل نے استدلال کیا کہ مقدمہ مکمل طور پر بالواسطہ ثبوتوں (circumstantial evidence) پر مبنی ہے، اور کوئی عینی شاہد موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج تنہا سزا کے لیے کافی نہیں۔ لیکن استغاثہ نے کہا کہ فوٹیج، ڈی این اے رپورٹ، اور جرائم کے آلے کی بازیابی سے ملزم کا جرم ثابت ہوتا ہے۔ سوال دوبارہ سامنے آیا: کیا پاکستان میں سی سی ٹی وی فوٹیج تنہا سزا دلوا سکتی ہے؟

سپریم کورٹ نے فوٹیج کی صداقت کی جانچ کی۔ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی رپورٹ نے تصدیق کی کہ فوٹیج میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا، اور ملزم کی شناخت فوٹیج سے مطابقت رکھتی تھی۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج، اگر مستند ہو، تو “سائلنٹ وٹنس” کے طور پر قابل قبول ہے اور تنہا سزا دلوا سکتی ہے۔

کیا پاکستان میں سی سی ٹی وی فوٹیج تنہا سزا دلوا سکتی ہے؟

سپریم کورٹ نے اس سوال کا جواب واضح کیا: ہاں، لیکن کچھ شرائط کے ساتھ۔ پاکستانی قانون، خاص طور پر قیام شہادت آرڈر 1984 (QSO) کی دفعہ 164 اور الیکٹرانک ٹرانزیکشنز آرڈیننس 2002، ڈیجیٹل ثبوتوں کو بنیادی ثبوت کا درجہ دیتا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں احمد عمر شیخ (2021 SCMR 873) کے مقدمے کا حوالہ دیا، جہاں سی سی ٹی وی فوٹیج کی صداقت کے لیے دو شرائط بیان کی گئیں:

  • فوٹیج کا ذریعہ واضح ہونا چاہیے۔
  • فرانزک رپورٹ سے ثابت ہونا چاہیے کہ فوٹیج میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا۔

اس مقدمے میں، سی سی ٹی وی فوٹیج خودکار طور پر ریکارڈ کی گئی تھی، اور اس کی صداقت کی تصدیق ہوئی۔ یہ “سائلنٹ وٹنس” کے طور پر پیش کی گئی، جو بغیر کسی عینی شاہد کے جرم ثابت کر سکتی ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ ڈیجیٹل ثبوت اب روایتی ثبوتوں کی طرح قابل اعتماد ہیں، اور انہیں پاکستانی قانون کے تحت بنیادی ثبوت سمجھا جاتا ہے۔

یہ سوال کہ کیا پاکستان میں سی سی ٹی وی فوٹیج تنہا سزا دلوا سکتی ہے، اب واضح ہے: اگر فوٹیج مستند ہو اور اس کی صداقت ثابت ہو، تو یہ تنہا سزا دلوا سکتی ہے۔ تاہم، عدالت نے ملزم کی سزائے موت کو قتل کی دفعہ (302 PPC) کے تحت برقرار رکھا، لیکن ریپ کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔

عالمی تناظر: سائلنٹ وٹنس تھیوری

“سائلنٹ وٹنس” تھیوری عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔ مثال کے طور پر، کینیڈا کے مقدمے R v. Nikolosvki (1996) میں سپریم کورٹ نے کہا کہ اچھی کوالٹی کی سی سی ٹی وی فوٹیج جرم کی شناخت کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح، امریکہ کے مقدمے United States v. Rembert (1988) میں اے ٹی ایم فوٹیج کو بغیر عینی شاہد کے قبول کیا گیا۔ یہ اصول پاکستانی عدالتوں میں بھی اپنایا گیا ہے، جیسا کہ اس مقدمے سے واضح ہے۔

کیا پاکستان میں سی سی ٹی وی فوٹیج تنہا سزا دلوا سکتی ہے؟ یہ فیصلہ اس سوال کا جواب دیتا ہے کہ ہاں، لیکن اسے قانونی تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا۔

نتیجہ: انصاف کی روشنی

سپریم کورٹ کا فیصلہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان میں سی سی ٹی وی فوٹیج تنہا سزا دلوا سکتی ہے، بشرطیکہ اس کی صداقت ثابت ہو۔ یہ فیصلہ ڈیجیٹل ثبوتوں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور پاکستانی عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی کے کردار کو مضبوط کرتا ہے۔ اگر آپ کو کوئی قانونی مسئلہ درپیش ہے، تو فوراً کسی وکیل سے رجوع کریں یا اپنی کہانی شیئر کریں۔ آپ کی کوئی قانونی کہانی ہے؟ نیچے شیئر کریں!

عمومی سوالات (FAQ)

سوال: سی سی ٹی وی فوٹیج کے علاوہ کون سے ثبوت درکار ہیں؟
جواب: اگر فوٹیج مستند ہو، تو یہ تنہا کافی ہو سکتی ہے۔ تاہم، ڈی این اے، جرائم کا آلہ، یا دیگر بالواسطہ ثبوت مقدمے کو مضبوط کرتے ہیں۔

سوال: پاکستان میں ڈیجیٹل ثبوت کیسے قابل قبول ہوتے ہیں؟
جواب: قیام شہادت آرڈر 1984 کی دفعہ 164 اور الیکٹرانک ٹرانزیکشنز آرڈیننس 2002 کے تحت، ڈیجیٹل ثبوت بنیادی ثبوت سمجھے جاتے ہیں اگر وہ مستند ہوں۔

سوال: کیا سی سی ٹی وی فوٹیج ہر مقدمے میں سزا دلوا سکتی ہے؟
جواب: نہیں، فوٹیج کی صداقت اور مقدمے کے حالات پر منحصر ہے۔ عدالت ثبوت کی مجموعی جانچ کرتی ہے۔

ڈس کلیمر: یہ بلاگ عمومی رہنمائی کے لیے ہے۔ اصل فیصلوں یا وکیل سے رجوع کریں۔

https://www.supremecourt.gov.pk/downloads_judgements/crl.p._467_2023..pdf

!

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *