کیا کم عمر لڑکی کی شادی جائز ہے
کیا کم عمر لڑکی کی شادی جائز ہے

کیا کم عمر لڑکی کی شادی جائز ہے؟ پاکستانی قانون اور شریعت کا جائزہ

کیا کم عمر لڑکی کی شادی جائز ہے؟ پاکستانی قانون اور شریعت کا جائزہ

 

ایک تاریخی عدالتی فیصلہ جس نے پاکستانی قانون اور اسلامی شریعت کے مابین توازن قائم کیا۔ وفاقی شرعی عدالت نے بچوں کی شادی سے متعلق قانون کو چیلنج کرنے والی درخواست پر کیا فیصلہ دیا؟ جانیے اس بلاگ میں۔

 

ایک گرم ستمبر کی صبح، کراچی کے رہائشی فاروق عمر بھوجا نے وفاقی شرعی عدالت کے سامنے ایک ایسی درخواست دائر کی جس نے پاکستانی معاشرے میں ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ یہ درخواست تھی چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929ء کے سیکشنز 4، 5 اور 6 کو چیلنج کرنے کی، جن کے تحت لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 16 سال مقرر کی گئی ہے۔ فاروق کا موقف تھا کہ یہ قانون اسلامی شریعت کے منافی ہے۔ لیکن کیا واقعی یہ قانون شریعت سے ٹکراتا ہے؟ کیا کم عمر لڑکی کی شادی اسلامی اصولوں کے مطابق جائز ہے؟ آئیے اس مقدمے کی کہانی اور وفاقی شرعی عدالت کے تاریخی فیصلے کا جائزہ لیتے ہیں۔

 

مقدمے کے حالات

 

یہ کہانی کراچی کے گنجان آباد علاقے سے شروع ہوتی ہے، جہاں فاروق عمر بھوجا اپنے خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔ فاروق، ایک پڑھے لکھے اور مذہبی خیالات کے حامل شخص، نے پاکستانی قانون کے اس حصے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا جو بچوں کی شادی پر پابندی عائد کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے دلائل کی بنیاد کچھ احادیث پر رکھی، جن میں سے ایک مشہور حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح سے متعلق ہے۔ اس حدیث کے مطابق، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے اس وقت نکاح کیا جب وہ چھ سال کی تھیں، اور رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی۔

 

فاروق نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ ان سیکشنز کو کالعدم قرار دے کیونکہ یہ اسلامی اصولوں کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر شریعت کم عمر لڑکی کی شادی کی اجازت دیتی ہے، تو پاکستانی قانون اسے کیوں روکتا ہے؟ یہ سوال نہ صرف قانونی بلکہ سماجی اور مذہبی لحاظ سے بھی حساس تھا، کیونکہ پاکستان میں بچوں کی شادی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو ثقافت، معاشی حالات، اور مذہبی عقائد سے جڑا ہوا ہے۔

 

کراچی، جو پاکستان کا معاشی مرکز ہے، وہ شہر ہے جہاں مختلف ثقافتیں اور مذہبی نظریات ایک ساتھ رہتے ہیں۔ یہاں کے کچھ علاقوں میں کم عمر شادیاں رواج کا حصہ ہیں، خصوصاً غریب خاندانوں میں جہاں لڑکیوں کو جلد شادی کر کے گھر سے رخصت کر دیا جاتا ہے۔ فاروق کا مقدمہ اسی پس منظر میں اہمیت رکھتا تھا، کیونکہ اس نے نہ صرف قانونی نظام بلکہ معاشرتی روایات کو بھی چیلنج کیا۔

 

قانونی کارروائی

 

فاروق عمر بھوجا نے اپنی درخواست 8 ستمبر 2020ء کو وفاقی شرعی عدالت میں دائر کی۔ ان کے وکیل، سید تنویر سہیل شاہ، نے عدالت کے سامنے دلائل پیش کیے کہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کے سیکشنز 4، 5 اور 6 شریعت کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہیں۔ انہوں نے حدیث نمبر 3255 (سنن نسائی) اور دیگر احادیث کا حوالہ دیا، جن میں حضرت عائشہ کے نکاح کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ وکیل کا کہنا تھا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کم عمر لڑکی سے نکاح کیا، تو اسے شریعت میں جائز سمجھا جانا چاہیے۔

 

دوسری طرف، وفاقی حکومت کے وکیل نے قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ سیکشنز معاشرے کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کم عمر شادیاں لڑکیوں کی صحت، تعلیم، اور سماجی ترقی کے لیے نقصان دہ ہیں۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ اس قانون کو برقرار رکھے کیونکہ یہ شریعت کے مقاصد (مقاصد الشریعہ) کے مطابق ہے۔

 

وفاقی شرعی عدالت نے مقدمے کی سماعت 23 ستمبر 2021ء کو کی اور فیصلہ 25 اکتوبر 2021ء کو سنایا۔ عدالت نے درخواست گزار کے دلائل کو تفصیل سے سنا اور اسلامی فقہ، احادیث، اور پاکستانی قانون کے تناظر میں ان کا جائزہ لیا۔ کیا کم عمر لڑکی کی شادی واقعی شریعت کے مطابق ہے؟ یہ سوال عدالت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج تھا۔

 

عدالت کا فیصلہ اور وجوہات

 

وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں درخواست کو مسترد کر دیا اور چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929ء کے سیکشنز 4، 5 اور 6 کو شریعت کے مطابق قرار دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے کی چند اہم وجوہات پیش کیں، جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:

 

  1. حدیث کی تشریح: عدالت نے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی مقام سے منسلک ہے۔ یہ ایک منفرد واقعہ تھا جو عام اصول کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔ اسلامی فقہ میں اتفاق ہے کہ کم عمر لڑکی کا نکاح اس کے ولی کی اجازت سے ہو سکتا ہے، لیکن اسے بلوغت تک رخصتی سے روکا جا سکتا ہے۔
  2. صحت اور معاشرتی حالات: عدالت نے کہا کہ لڑکی کی شادی کے لیے “طبی بلوغت” کی عمر مختلف ہو سکتی ہے، جو کہ آب و ہوا، خوراک، اور معاشی حالات پر منحصر ہے۔ 16 سال کی عمر کا تعین پاکستانی قانون نے ان عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا، جو شریعت کے اصولوں سے ہم آہنگ ہے۔
  3. خیار البلوغ: اسلامی فقہ میں لڑکی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بلوغت کے بعد اپنے نکاح کو قبول یا رد کر سکے۔ عدالت نے کہا کہ 16 سال کی عمر اس حق کو استعمال کرنے کے لیے مناسب ہے، کیونکہ اس عمر تک لڑکی ذہنی اور جسمانی طور پر فیصلہ کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔
  4. سد الذرائع: عدالت نے شریعت کے اصول “سد الذرائع” (نقصان سے بچاؤ) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی جائز (مباح) عمل معاشرے کے لیے نقصان دہ ہو، تو ریاست اس پر پابندی عائد کر سکتی ہے۔ کم عمر شادیاں لڑکیوں کی صحت اور تعلیم کے لیے نقصان دہ ہیں، اس لیے 16 سال کی عمر کی حد جائز ہے۔
  5. حضرت عمر کا فیصلہ: عدالت نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کی مثال دی، جب انہوں نے تین طلاقوں کو ایک ساتھ دینے کی روک تھام کے لیے قانون بنایا تھا۔ اسی طرح، کم عمر شادیوں کو روکنے کا قانون بھی شریعت کے مطابق ہے۔
  6. تعلیم کی اہمیت: عدالت نے کہا کہ 16 سال کی عمر کی حد لڑکیوں کو بنیادی تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیتی ہے، جو کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق فرض ہے۔ تعلیم نہ صرف ذہنی ترقی بلکہ نسلوں کی حفاظت کے لیے بھی ضروری ہے۔

 

عدالت نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ قانون نہ صرف شریعت بلکہ مقاصد الشریعہ (حفاظت نفس، عقل، نسل، مال، اور دین) کے بھی مطابق ہے۔ کیا کم عمر لڑکی کی شادی جائز ہے؟ عدالت کا جواب تھا کہ شریعت اس کی اجازت دیتی ہے، لیکن معاشرتی نقصانات سے بچنے کے لیے ریاست اسے منظم کر سکتی ہے۔

 

سبق اور نتیجہ

 

اس عدالتی فیصلے سے ہمیں کئی اہم سبق ملتے ہیں۔ سب سے پہلے، یہ کہ شریعت اور پاکستانی قانون کے درمیان کوئی بنیادی تضاد نہیں ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے ثابت کیا کہ شریعت کے اصولوں کو جدید معاشرتی تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔ کیا کم عمر لڑکی کی شادی جائز ہے؟ یہ فیصلہ بتاتا ہے کہ شریعت لچکدار ہے اور معاشرے کے بہتر مفاد کے لیے قوانین بنائے جا سکتے ہیں۔

 

دوسرا سبق یہ ہے کہ تعلیم ہر مسلمان کے لیے فرض ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ کم عمر شادیاں لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کر سکتی ہیں، جو کہ نہ صرف ان کی ذاتی ترقی بلکہ قوم کی ترقی کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ یہ فیصلہ پاکستانی معاشرے کے لیے ایک پیغام ہے کہ ہمیں اپنی بیٹیوں کو تعلیم دینے پر توجہ دینی چاہیے۔

 

تیسرا، یہ فیصلہ پاکستانی عدالتی نظام کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے نہ صرف قانونی بلکہ مذہبی اور سماجی پہلوؤں پر بھی غور کیا اور ایک متوازن فیصلہ دیا۔ اس سے عام پاکستانیوں کا عدالتی نظام پر اعتماد بڑھتا ہے۔

 

آخر میں، یہ فیصلہ ہمیں سکھاتا ہے کہ قانون اور شریعت کا مقصد انسانوں کی بہتری ہے۔ اگر کوئی روایت یا عمل معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے، تو اسے تبدیل یا منظم کیا جا سکتا ہے۔ کیا کم عمر لڑکی کی شادی جائز ہے؟ ہاں، لیکن اسے معاشرتی حالات اور شریعت کے مقاصد کے مطابق منظم کرنا ضروری ہے۔

 

یہ فیصلہ پاکستانی معاشرے کے لیے ایک سنگ میل ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں اپنی روایات پر نظرثانی کرنی چاہیے اور اپنی بیٹیوں کو وہ حقوق دینے چاہئیں جو شریعت اور قانون دونوں نے ان کے لیے مقرر کیے ہیں۔ کیا کم عمر لڑکی کی شادی جائز ہے؟ یہ سوال اب صرف قانونی نہیں بلکہ ہمارے سماجی ضمیر کا بھی امتحان ہے۔

 

ڈس کلیمر: یہ بلاگ اصل عدالتی فیصلے کا ترجمہ یا خلاصہ ہے، جس میں غلطیوں کا امکان ہو سکتا ہے۔ کسی بھی قانونی حوالے کے لیے اصل فیصلہ پڑھیں۔

 

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *