جولیئن اسانج نامی ایک آسٹریلوی صحافی نے دنیا کو ہلا دینے والا پلیٹ فارم بنایا
جولیئن اسانج نامی ایک آسٹریلوی صحافی نے دنیا کو ہلا دینے والا پلیٹ فارم بنایاجولیئن اسانج نامی ایک آسٹریلوی صحافی نے دنیا کو ہلا دینے والا پلیٹ فارم بنایا

کیا ایک غیر ملکی صحافی کو امریکی قانون کے تحت سزا دی جا سکتی ہے؟

جولیئن اسانج بمقابلہ امریکہ: ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ اسانج کی امریکہ ایکسٹراڈیشن میں آزادیِ رائے اور سزائے موت سے تحفظ کے مسائل اٹھتے ہیں۔ کیا یہ مقدمہ صحافت اور انسانی حقوق کے لیے خطرہ ہے؟

✍️ 3. مقدمے کے حالات

سن 2006 میں، جولیئن اسانج نامی ایک آسٹریلوی صحافی نے دنیا کو ہلا دینے والا پلیٹ فارم بنایا: وکی لیکس۔ یہ ویب سائٹ خفیہ دستاویزات کو منظرِ عام پر لانے کا وعدہ کرتی تھی، چاہے وہ حکومتیں ہوں یا طاقتور ادارے۔ اسانج کا مقصد تھا کہ وہ سچ کو پردے سے ہٹائیں، لیکن یہ سفر انہیں ایک ایسی جنگ میں لے گیا جس نے ان کی زندگی بدل دی۔

2009 میں، امریکی فوج کی ایک انٹیلی جنس تجزیہ کار، چیلسی میننگ، نے وکی لیکس کو ہزاروں خفیہ دستاویزات فراہم کیں۔ ان میں عراق اور افغانستان کی جنگوں سے متعلق رپورٹس، سفارتی کیبلز، اور ایک ویڈیو شامل تھی جس میں امریکی ہیلی کاپٹر بغداد میں نہتے شہریوں پر فائرنگ کر رہا تھا۔ اسانج نے ان دستاویزات کو وکی لیکس پر شائع کیا، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ وہ امریکی فوج کی جانب سے جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ لیکن امریکہ نے اسے ایک خطرناک جرم قرار دیا۔

امریکہ نے الزام لگایا کہ اسانج نے میننگ کے ساتھ مل کر خفیہ معلومات چوری کیں اور ان کی اشاعت سے امریکی اتحادیوں کے لیے معلومات فراہم کرنے والے افراد کی جانیں خطرے میں ڈال دیں۔ 2010 سے، اسانج قانونی چارہ جوئی سے بچنے کے لیے چھپتے رہے۔ پہلے انہوں نے سویڈن کے ایک مقدمے سے بچنے کے لیے ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لی، جہاں وہ سات سال تک رہے۔ لیکن 2019 میں، ایکواڈور نے انہیں سفارت خانے سے نکال دیا، اور برطانوی پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔ اب، امریکہ ان کی ایکسٹراڈیشن کا مطالبہ کر رہا تھا تاکہ ان پر 18 جرائم کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جا سکے۔

یہ کہانی ایک صحافی کی جدوجہد کی ہے جو سچائی کے لیے لڑ رہا تھا، لیکن اسے دنیا کی سب سے طاقتور حکومت کے غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ کیا اسانج ایک ہیرو ہیں یا ایک مجرم؟ یہ سوال لندن کی عدالتوں میں گونج رہا تھا۔

✍️ 4. قانونی کارروائی (عدالتی سفر)

ٹرائل کورٹ کا فیصلہ:
2020 میں، ویسٹ منسٹر مجسٹریٹس کورٹ میں اسانج کے ایکسٹراڈیشن کیس کی سماعت ہوئی۔ ڈسٹرکٹ جج وینیسا بارائٹسر نے اسانج کے وکلاء کے دلائل سنے، جنہوں نے کہا کہ یہ ایکسٹراڈیشن آزادیِ رائے (آرٹیکل 10)، منصفانہ ٹرائل (آرٹیکل 6)، اور انسانی حقوق (آرٹیکل 2 اور 3) کی خلاف ورزی ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اسانج کو ان کی قومیت (غیر امریکی ہونے) کی وجہ سے تعصب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکی وکلاء نے کہا کہ اسانج نے قومی سلامتی کو نقصان پہنچایا اور ان کے جرائم صحافت نہیں، بلکہ جاسوسی ہیں۔

جج بارائٹسر نے 4 جنوری 2021 کو فیصلہ دیا کہ اسانج کی ایکسٹراڈیشن ظالمانہ ہوگی کیونکہ ان کی ذہنی صحت خراب ہے اور وہ ممکنہ طور پر امریکی جیل میں خودکشی کر سکتے ہیں۔ تاہم، انہوں نے اسانج کے دیگر دلائل مسترد کر دیے، یہ کہتے ہوئے کہ ایکسٹراڈیشن قانون کے مطابق ہے اور سیاسی نظریات کی بنیاد پر نہیں۔ اسانج کو رہا کر دیا گیا، لیکن امریکہ نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی۔

ہائی کورٹ کا ردعمل:
امریکہ نے ہائی کورٹ میں اپیل کی اور یقین دہانی کرائی کہ اسانج کو سخت جیل حالات (خصوصی انتظامی اقدامات) کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور اگر سزا ہوئی تو وہ آسٹریلیا میں سزا کاٹ سکتے ہیں۔ ڈویژنل کورٹ (لارڈ برنیٹ اور ہولرائیڈ جج) نے دسمبر 2021 میں امریکی اپیل کی منظوری دی، یہ کہتے ہوئے کہ یقین دہانیوں نے ظلم کے خدشات کو دور کر دیا ہے۔ کیس کو دوبارہ مجسٹریٹس کورٹ کو بھیجا گیا، اور سینئر ڈسٹرکٹ جج گولڈسپرنگ نے اسے سیکریٹری آف اسٹیٹ کو فیصلے کے لیے بھیج دیا۔

17 جون 2022 کو، سیکریٹری آف اسٹیٹ نے اسانج کی ایکسٹراڈیشن کی منظوری دی۔ اسانج نے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی، لیکن جون 2023 میں جج سوئفٹ نے کاغذی کارروائی پر اسے مسترد کر دیا۔ اسانج نے اپیل کی تجدید کی، اور 20-21 فروری 2024 کو ہائی کورٹ نے اس کی سماعت کی۔

ہائی کورٹ میں دلائل:
اسانج کے وکلاء نے کہا کہ ایکسٹراڈیشن برطانیہ-امریکہ ایکسٹراڈیشن معاہدے کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ یہ سیاسی جرم کے لیے ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسانج کو ان کی سیاسی رائے کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور امریکہ میں انہیں منصفانہ ٹرائل نہیں ملے گا کیونکہ وہ غیر امریکی ہیں۔ مزید یہ کہ، انہیں سزائے موت کا خطرہ ہے اگر نئے الزامات (جیسے غداری) شامل کیے گئے۔

امریکی وکلاء نے کہا کہ اسانج کے جرائم سیاسی نہیں، بلکہ قومی سلامتی کے خلاف ہیں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ اسانج کو امریکی آئین کے تحت تحفظات حاصل ہوں گے، اور ان کے الزامات صرف ان دستاویزات تک محدود ہیں جن میں انسانی ذرائع کے نام شائع کیے گئے۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ کے وکیل نے کہا کہ 2003 کے ایکسٹراڈیشن ایکٹ کے تحت معاہدے پر غور نہیں کیا جا سکتا۔

✍️ 5. ہائی کورٹ کا فیصلہ اور اس کی وجوہات

26 مارچ 2024 کو، ہائی کورٹ (ڈیم وکٹوریہ شارپ اور جسٹس جانسن) نے فیصلہ دیا کہ اسانج کے پاس تین بنیادوں پر اپیل کے لیے قابلِ بحث کیس ہے:

  1. قومیت کی بنیاد پر تعصب (سیکشن 81(b)): عدالت نے کہا کہ اسانج کو ان کی غیر امریکی قومیت کی وجہ سے ٹرائل میں تعصب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ امریکی پراسیکیوٹر گورڈن کرومبرگ نے کہا کہ پراسیکیوشن یہ دلیل دے سکتی ہے کہ غیر ملکی شہریوں کو فرسٹ ایمنڈمنٹ (آزادیِ رائے) کے تحفظات حاصل نہیں ہیں، خاص طور پر قومی سلامتی سے متعلق معلومات کے حوالے سے۔ عدالت نے اسے ایک قابلِ بحث نقطہ قرار دیا کیونکہ اگر اسانج کو فرسٹ ایمنڈمنٹ کے حقوق سے محروم کیا گیا تو انہیں اپنے دفاع اور سزا کے مرحلے میں نقصان ہوگا۔
  2. آزادیِ رائے (آرٹیکل 10): عدالت نے کہا کہ اگر اسانج کو ان کی قومیت کی وجہ سے فرسٹ ایمنڈمنٹ کے حقوق سے محروم کیا گیا، تو یہ یورپی کنونشن کے آرٹیکل 10 (آزادیِ رائے) کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ یہ نقطہ صرف قومیت کے تعصب کے نتیجے میں قابلِ بحث ہے۔
  3. سزائے موت سے ناکافی تحفظ (سیکشن 93-95): اسانج نے کہا کہ ان کے خلاف الزامات غداری یا جاسوسی کے نئے الزامات میں تبدیل ہو سکتے ہیں، جو سزائے موت کا باعث بن سکتے ہیں۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ موجودہ یقین دہانی سزائے موت کے نفاذ کو واضح طور پر روکتی نہیں ہے، اور یہ ایک قابلِ بحث نقطہ ہے کہ ایکسٹراڈیشن سیکشن 94 اور 95 کی خلاف ورزی کر سکتی ہے۔

عدالت کی وجوہات:

  • قومیت اور فرسٹ ایمنڈمنٹ: عدالت نے نوٹ کیا کہ کرومبرگ کا بیان ایک سنجیدہ قانونی دلیل کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اسانج کے دفاع کو کمزور کر سکتی ہے۔ امریکی آئین میں واضح طور پر نہیں کہا گیا کہ غیر شہریوں کو فرسٹ ایمنڈمنٹ کے حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے، لیکن چونکہ اسانج کے جرائم غیر ملکی سرزمین پر ہوئے، اس لیے یہ ممکن ہے کہ انہیں امریکی شہریوں سے مختلف سلوک کا سامنا کرنا پڑے۔
  • سزائے موت کا خطرہ: عدالت نے تسلیم کیا کہ اسانج کے خلاف موجودہ الزامات سزائے موت کا باعث نہیں بنتے، لیکن نئے الزامات (جیسے 18 USC §2381 یا §794) شامل کیے جا سکتے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں (جیسے ڈونلڈ ٹرمپ اور سارہ پیلن) کے بیانات نے اس خطرے کو تقویت دی۔ موجودہ یقین دہانی میں سزائے موت کے نفاذ سے تحفظ واضح نہیں ہے۔
  • دیگر دلائل کی ناکامی: عدالت نے اسانج کے دیگر دلائل مسترد کر دیے، جیسے کہ سیاسی جرم کے لیے ایکسٹراڈیشن پر پابندی، سیاسی رائے کی بنیاد پر مقدمہ، اور منصفانہ ٹرائل کی کمی۔ عدالت نے کہا کہ ایکسٹراڈیشن ایکٹ 2003 معاہدے پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اور امریکی عدالتی نظام میں منصفانہ ٹرائل کے لیے کافی تحفظات موجود ہیں۔

عدالت نے فیصلہ دیا کہ امریکہ کو 16 اپریل 2024 تک یقین دہانیاں فراہم کرنے کا موقع دیا جائے کہ اسانج کو فرسٹ ایمنڈمنٹ کے حقوق حاصل ہوں گے، ان کی قومیت کی وجہ سے تعصب نہیں ہوگا، اور سزائے موت کا نفاذ نہیں کیا جائے گا۔ اگر یقین دہانیاں نہ دی گئیں، تو اپیل کی اجازت دی جائے گی۔ اگر دی گئیں، تو 20 مئی 2024 کو مزید سماعت ہوگی۔

✍️ 6. سبق اور نتیجہ

جولیئن اسانج کا کیس ہمیں قانون، صحافت، اور انسانی حقوق کے درمیان پیچیدہ توازن کی یاد دلاتا ہے۔ اس فیصلے سے کئی اہم سبق ملتے ہیں:

  1. آزادیِ رائے کی اہمیت: یہ مقدمہ ظاہر کرتا ہے کہ آزادیِ رائے ایک عالمگیر حق ہے، لیکن اس کی حدود ہر ملک میں مختلف ہو سکتی ہیں۔ اسانج کی صحافت نے امریکی
  2.  جنگی جرائم کو بے نقاب کیا، لیکن اس نے قومی سلامتی کے سوالات بھی اٹھائے۔ عدالت کا فیصلہ بتاتا ہے کہ صحافیوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے مضبوط قانونی دلائل درکار ہوتے ہیں۔
  3. ایکسٹراڈیشن کے خطرات: یہ کیس بین الاقوامی ایکسٹراڈیشن کے خطرات کو اجاگر کرتا ہے، خاص طور پر جب ایک شخص کو غیر ملکی عدالتوں میں پیش کیا جائے جہاں ان کے حقوق مختلف ہو سکتے ہیں۔ اسانج کی قومیت سے متعلق خدشات ہر اس شخص کے لیے ایک سبق ہیں جو بین الاقوامی قانون کے دائرے میں آتا ہے۔
  4. سزائے موت کا سوال: عدالت کا سزائے موت سے متعلق تشویش ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظات ہر قانونی عمل میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ فیصلہ دیگر ممالک کو بھی اپنے ایکسٹراڈیشن معاہدوں پر نظرثانی کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔
  5. عام آدمی کے لیے پیغام: یہ مقدمہ ہمیں بتاتا ہے کہ قانون صرف طاقتوروں کے لیے نہیں، بلکہ ہر فرد کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہے۔ اسانج کی کہانی ہر اس شخص کے لیے ایک آئینہ ہے جو سچائی کے لیے لڑتا ہے، لیکن اسے طاقتور قوتوں کے سامنے احتیاط سے کام لینا چاہیے۔

یہ فیصلہ نہ صرف قانونی ماہرین بلکہ ہر اس شخص کے لیے اہم ہے جو آزادیِ رائے اور انصاف کے اصولوں پر یقین رکھتا ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قانون ایک زندہ عمل ہے جو وقت کے ساتھ بدلتا اور سیکھتا ہے۔

 

 

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *