قتل اور اغوا کا مقدمہ
قتل اور اغوا کا مقدمہ

رات کی تاریکی میں شناخت: کیا یہ سزا کے لیے کافی ہے؟

  • لارکانہ میں قتل اور اغوا کا مقدمہ، پانچ ملزمان، اور سندھ ہائی کورٹ کا حیران کن فیصلہ۔ کیا ثبوتوں کی کمی نے انصاف کا رخ موڑ دیا؟ اس عدالتی کہانی کے قانونی راز جانیں۔
  • مقدمے کے حالات
  • ایک گہری رات کا تصور کریں، جب چاند بادلوں کے پیچھے چھپا ہو۔ 10 مئی 2009 کو لارکانہ کے ایک پھلوں کے باغ میں خادم حسین اپنے بھائی علی حسن، کزن عبدالرحیم، اور مزدور محمد صدیق کے ساتھ کیلوں سے بھری گاڑی لاد رہے تھے۔ رات کے نو بجے، جب گاڑی کی دھیمی روشنی باغ کے کونوں کو جگمگا رہی تھی، اچانک کچھ سایوں نے انہیں گھیر لیا۔ یہ کوئی عام چور یا راہزن نہیں تھے۔
  • خادم حسین کے مطابق، پندرہ مسلح آدمی، جن کے ہاتھوں میں کلاشنکوف اور G-3 رائفلیں تھیں، ان پر ٹوٹ پڑے۔ ان میں سے کچھ چہرے خادم کو جان پہچان کے لگے—محمد ابراہیم، مہرام، محمد مٹھل عرف مٹھو۔ کچھ اجنبی تھے، لیکن گاڑی کی روشنی میں ان کے چہرے صاف دکھائی دیے۔ ان لوگوں نے خادم اور اس کے ساتھیوں کو دبوچ لیا اور علی حسن، عبدالرحیم، اور محمد صدیق کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔ خادم سے کہا گیا، “تیس لاکھ روپے تیار کرو، ورنہ یہ تینوں واپس نہیں آئیں گے۔”
  • خوف کے عالم میں خادم اپنے گاؤں لوٹا۔ اس نے اپنے بڑے، محمد عثمان ننگریجو، کو ساری بات بتائی۔ اگلے دن گاؤں والوں نے مل کر احتجاج کیا، جو مقامی اخبار “کاویش” میں چھپا۔ لیکن عجیب بات یہ کہ اس احتجاج میں کسی ملزم کا نام نہیں لیا گیا۔ چند دن بعد، خادم کو ایک فون آیا۔ آواز نے دھمکی دی کہ اگر تاوان نہ ملا تو مغویوں کی لاشیں ملیں گی۔ خادم پریشان تھا، لیکن اس کے پاس اتنی بڑی رقم کہاں سے آتی؟
  • 14 جون کو ایک اور دھچکا لگا۔ تھانہ گلو سیال کے SHO نے فون کیا کہ پولیس اور ڈاکوؤں کے مقابلے میں مغویوں کو ڈاکوؤں نے گولی مار دی۔ خادم فوراً نوڈیرو کے ہسپتال پہنچا، جہاں اس نے اپنے پیاروں کی لاشیں دیکھیں۔ دل ٹوٹ چکا تھا، لیکن خادم نے ہمت کی اور 15 جون کو تھانے جا کر مقدمہ درج کیا۔ لیکن یہ مقدمہ 35 دن کی تاخیر سے درج ہوا، جو بعد میں عدالت میں ایک بڑا سوال بن گیا۔
  • یہ کہانی صرف ایک جرم کی نہیں، بلکہ انصاف کی تلاش کی ہے۔ کیا خادم کی گواہی ملزمان کو سزا دلوا سکتی تھی، یا کوئی اور راز اس رات کے پردے میں چھپا تھا؟
  • قانونی کارروائی
  • پولیس نے تفتیش شروع کی اور پانچ لوگوں—محمد ابراہیم تنیو، مہرام تنیو، پیار علی تنیو، اللہ دینو تنیو، اور محمد مٹھل عرف مٹھو—کو پکڑ لیا۔ ان پر الزامات تھے کہ انہوں نے تین لوگوں کو اغوا کیا، ان کا قتل کیا، اور دہشت گردی کے جرائم کیے۔ کیس اینٹی ٹیررزم کورٹ، لارکانہ میں چلا۔
  • 20 اپریل 2014 کو کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ یہ پانچوں قصوروار ہیں۔ ہر ملزم کو کئی سزائیں دی گئیں:
    تین بار عمر قید (قتل، اغوا، اور دہشت گردی کے الزامات پر)
    ایک لاکھ روپے فی کس معاوضہ مقتولین کے ورثا کے لیے
    جرمانے، اور ان کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم
  • یہ فیصلہ سخت تھا، لیکن ملزمان نے ہار نہیں مانی۔ انہوں نے سندھ ہائی کورٹ میں دو الگ اپیلوں (D-19 اور D-20 آف 2014) کے ذریعے فیصلے کو چیلنج کیا۔ ان کے وکلاء نے زور دیا کہ:
    یہ سارا کیس جھوٹا ہے اور خادم سے زمین اور مچھلی کے تالاب پر پرانا جھگڑا اس کی وجہ ہے۔
    رات کے وقت گاڑی کی روشنی میں ملزمان کو پہچاننا مشکل تھا، اور یہ ثبوت کمزور ہے۔
    مقدمہ 35 دن بعد کیوں درج کیا گیا؟ اس تاخیر کی کوئی وجہ نہیں۔
    خادم نے تاوان کے فون کا نمبر نہیں بتایا، جو اغوا کے دعوے کو مشکوک بناتا ہے۔
    گواہوں کی باتیں آپس میں میل نہیں کھاتیں۔
  • دوسری طرف، خادم کے وکیل اور پراسیکیوٹر نے کہا کہ فون نمبر بتانا ضروری نہیں تھا، اور ملزمان نے مغویوں کو اس لیے مارا کیونکہ تاوان نہیں ملا۔
  • ہائی کورٹ نے دونوں طرف کی باتیں سنیں۔ گواہوں میں خادم حسین، ڈاکٹر حکیم علی (جنہوں نے لاشوں کی رپورٹ دی)، اور پولیس والوں نے بیانات دیے۔ لیکن ایک اہم گواہ، عبدالرحمن، جو کہ واقعے کے وقت وہاں تھا، پراسیکیوشن نے پیش نہیں کیا۔ ملزمان نے اپنے دفاع میں کوئی گواہ تو نہیں دیا، لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ بے گناہ ہیں اور زمینی جھگڑے کی وجہ سے پھنسائے گئے ہیں۔
  • ہائی کورٹ کا فیصلہ اور وجوہات
  • 16 مارچ 2018 کو سندھ ہائی کورٹ نے دونوں اپیلوں پر فیصلہ سنایا۔ جسٹس ارشاد علی شاہ نے لکھا کہ پراسیکیوشن اپنا کیس ثابت نہیں کر سکی، اور ملزمان کو بری کر دیا گیا۔ فیصلے کی اہم وجوہات یہ تھیں:
  1. رات کی شناخت پر سوال: عدالت نے کہا کہ رات کے وقت، صرف گاڑی کی روشنی میں کسی کو پہچاننا آسان نہیں۔ پراسیکیوشن نے وہ گاڑی بھی عدالت میں پیش نہیں کی، جو اس دعوے کو اور کمزور کرتا ہے۔

  2. مقدمے میں تاخیر: واقعے کے 35 دن بعد FIR درج ہوئی، اور اس کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتائی گئی۔ اس کے علاوہ، خادم کے دوسرے بیان (20 جون 2009) میں پیار علی اور اللہ دینو کے نام ہی نہیں تھے۔ یہ بات ان کے خلاف الزامات کو مشکوک بناتی ہے۔

  3. گواہوں کی باتوں میں فرق:
    خادم نے کہا کہ اسے، اللہ دینو، اور عبدالرحمن کو بھی پہلے اغوا کیا گیا، لیکن بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ لیکن اس کی FIR میں یہ بات نہیں تھی۔
    گواہ اللہ دینو نے کہا کہ صرف تین لوگوں کو اغوا کیا گیا، جو خادم کی کہانی سے الگ ہے۔
    عبدالرحمن کو پراسیکیوشن نے گواہ کے طور پر پیش نہیں کیا۔ عدالت نے کہا کہ شاید وہ خادم کی بات کی حمایت نہیں کرتا تھا۔

  4. تاوان کے فون کا معمہ: خادم نے تاوان کے مطالبے کے فون نمبر کی کوئی تفصیل نہ پولیس کو دی اور نہ عدالت میں۔ یہ اغوا کے الزام کو کمزور کرتا ہے۔

  5. زمینی جھگڑے کا سایہ: خادم نے مانا کہ اس کا ملزمان سے زمین اور مچھلی کے تالاب پر تنازع تھا۔ عدالت نے کہا کہ یہ تنازع ملزمان کو جھوٹے کیس میں پھنسانے کی وجہ ہو سکتا ہے۔

  6. پولیس مقابلے کی کہانی: پولیس افسر امام بخش نے بتایا کہ مقابلے میں ڈاکوؤں (مبین اور مرادو ناریجو) نے مغویوں کو مارا۔ لیکن انہوں نے عدالت میں موجود ملزمان کو اس مقابلے سے جوڑا نہیں۔ اس سے ان کا جرم میں ملوث ہونا مشکوک ہو گیا۔

  7. تفتیش کے جھول:
    جائے وقوعہ کا معائنہ ایک دن بعد ہوا، جو کہ تاخیر کا شکار تھا۔
    گواہوں کے بیانات ایک “منشی” نے لکھے، لیکن اس منشی کو گواہ کے طور پر پیش نہیں کیا گیا۔ یہ ملزمان کے دفاع کے حق کے خلاف تھا۔

  • عدالت نے کہا کہ پراسیکیوشن کا کیس “شک سے بالاتر” ثابت نہیں ہوا۔ ملزمان نے اپنی بے گناہی کا جو دعویٰ کیا، اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ، تمام ملزمان کو بری کر دیا گیا اور انہیں فوراً رہا کرنے کا حکم دیا گیا۔
  • سبق اور نتیجہ
  • یہ فیصلہ ہمارے عدالتی نظام کی خوبصورتی اور سختی دونوں کو دکھاتا ہے۔ اس سے ہمیں کچھ اہم باتیں سمجھ آتی ہیں:
  1. ثبوت سب سے بڑا ہتھیار ہے: چاہے کیس کتنا ہی سنگین ہو—قتل ہو یا دہشت گردی—بغیر پختہ ثبوت کے سزا نہیں ہو سکتی۔ رات کی روشنی میں شناخت یا تاخیر سے لکھی گئی FIR جیسے کمزور ثبوت انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے۔

  2. پولیس کو چوکنا رہنا چاہیے: تفتیش میں چھوٹی چھوٹی غلطیاں، جیسے دیر سے جائے وقوعہ دیکھنا یا گواہوں کے بیانات کی تصدیق نہ کرنا، پورے کیس کو ڈبو سکتی ہیں۔ پولیس کے لیے یہ پیغام ہے کہ تفتیش صاف اور فوری ہونی چاہیے۔

  3. ذاتی دشمنیوں سے ہوشیار: زمین کے جھگڑوں یا پرانی رنجشوں کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کو جھوٹے کیسوں میں پھنسا سکتے ہیں۔ عدالتوں کو ایسی رنجشوں کو سمجھنا پڑتا ہے تاکہ بے گناہ بچیں۔

  4. عام پاکستانی کے لیے سبق: اگر آپ کبھی قانون کے جال میں پھنسیں، تو یاد رکھیں کہ مضبوط ثبوت اور سچی گواہی آپ کو بچا سکتی ہے۔ انصاف جذبات سے نہیں، حقائق سے ملتا ہے۔

  • یہ فیصلہ صرف ملزمان کے لیے نہیں، بلکہ ہر اس شخص کے لیے ایک سبق ہے جو انصاف پر یقین رکھتا ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، اور کوئی بھی بغیر ثبوت کے سزا نہیں پا سکتا۔
  •  

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *